ہمارے کام تو آئی وفا کسی کی نہیں

اللہ سلامت رکھے ‘ شکر ہے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ہی خیال آگیا اور نہ صرف فردوس جمال کوفون کرکے اس کی ڈھارس بندھائی بلکہ اسے ہر قسم کے علاج معالجے کی یقین دہانی کرائی ‘ ورنہ یہ فرض توصوبے کے وزیر اعلیٰ کا تھا کہ وہ پشاور کے اس فرزند کا جو اب لیجنڈ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور پوری دنیا میں اپنے فن سے اپنے شہر کا نام روشن کر رہا ہے’ نہ صرف حال احوال پوچھتے ‘ اسے مکمل علاج معالجے کی یقین دہانی کراتے ‘ اس کے لئے ضروری فنڈز مختص کرتے اور اس کے لواحقین کی دلجوئی کے لئے کوئی دقیفہ فروگزاشت نہ کرتے ‘ مگروہ کیا ہے ناں کہ جہاں عوام کے لئے طبی سہولتوں کوچھ ماہ کے لئے معطل کردیاگیا ہو’اورغریب لوگ علاج کی سہولتوں سے محروم کر دیئے گئے ہوں ‘ وہاں فردوس جمال جیسے باکمال ‘ باصلاحیت اورفخر پشاور ‘ فخر پختونخوا ‘بلکہ فخر پاکستان فنکار کے بارے میں کون سوچے ‘ اگر صوبے اور پشاور کے اس عظیم سپوت کے لئے خصوصی طور پرعلاج کے لئے فنڈز کا اعلان کیا جاتاتویقینا اس سے عوام بالعموم اور فنکار برادری میں اچھا تاثر جاتا ‘ عدیل زیدی نے شاید ایسے ہی موقعوں کے لئے کہا تھا
بہت بھروسہ تھا ہم کو عدیل اپنوں کا
ہمارے کام توآتی وفا کسی کی نہیں
فردوس جمال ‘ شمیل چوہان اور شکیل ارشد کا ٹرائیکا 70ء کی دہائی کے نصف آخر میں پشاورمیں بہت سرگرم تھا ‘ میں اس وقت بطور پروڈیوسر ریڈیوپاکستان پشاور سے وابستہ تھا ‘ شکیل ارشد اور شمیل چوہان تو ہمارے ریڈیو کے بعض پروگراموں میں شامل تھے ‘ دونوں ایک روز فردوس جمال کو لے کرآئے اور مجھ سے کہا ‘ فردوس کی آواز کا امتحان (آڈیشن) پاس تو کیا ہے مگرکام کم کم ہی ملتا ہے ‘ ایک مختصر سی گفتگوکے بعد میں نے اسے ا نگریزی ادب سے ترجمہ شدہ ڈرامہ”مارخیم” میں ایک مختصر کردار کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ‘فردوس میرا تم سے وعدہ ہے کہ اگر یہ کردار تم نے محنت سے ادا کیا تو اگلے ڈرامے میں تمہیں مرکزی کردار میں لائوں گا’ دراصل اس کے ساتھ بات چیت کے دوران اس کی صلاحیتوں کا مجھے ادراک ہوگیا تھا ‘ اور میں نے اپنے وعدے کے مطابق ”مارخیم” میں بائیسکوپ والا کردار کے بعد ڈاکٹر قاضی فصیح الدین (آج کل غالباً کراچی میں کارڈیالوجسٹ ہیں) کے لکھے ہوئے ڈرامے ”کل آج اور کل” میں اسے مرکزی کردار میں شامل کیا ‘ محولہ ڈرامے اس دور میں عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ریڈیو ہیڈ کوارٹر کی ہدایات کے مطابق پورے پاکستان کے بڑے ریڈیو سٹیشنوں سے نشر کیاگیا ‘ اس کے بعد ہمارے ایک ساتھی ر فعت اللہ خان نے اسے اپنے پروگرام ”55منٹ” جوبعد میں سب رنگ کے نام سے بھی کئی سال تک نشر ہوتا رہا ‘ کے لئے اسے بطور کمپیئر منتخب کیا’ اس میں فردوس جمال کی اعلیٰ پرفارمنس کے نتیجے میں اس کی شہرت پی ٹی وی پشاورتک اسے لے گئی ‘ اور جب پی ٹی وی کے مختلف مراکز پرڈرامہ فیسٹیول ہوا توپشاور سے دو ڈرامے پاگل اور دوسرا جس کا نام اب یاد نہیں رہا ‘ اس میں فردوس نے ایک بوڑھے کا کرداراتنی مہارت سے ادا کیا کہ لاہور سنٹر کے اہم اور مشہور ڈرامہ پروڈیوسر مرحوم محمد نثارحسین ( ایم این ایچ) کی اس پر نظرپڑ گئی اور وہ فردوس کولاہور لے گئے اس کے بعد فردوس جمال نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا اور عزت و شہرت اس کے قدموں میں جگہ پانے کوبے تاب تھی ‘ یعنی بقول شاعر
توذرا چھیڑ تودے تشنہ مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لئے!
آخری بار فردوس جمال سے ملاقات ان کے برخوردار کے ولیمے کے موقع پر ہوئی تھی جب انہوں نے ہم دوستوں کو اس موقع پرنہ صرف یکجا کیا بلکہ ان کے ساتھ لاہور فلم اورٹی وی انڈسٹری کے بڑے بڑے نام والے بھی اس ولیمے میں شرکت کے لئے پشاور آئے تھے’ یہ فردوس جمال کی خاندانی عظمت کی نشانی ہے کہ ان سے میراتعارف کراتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی فنی دنیا کے اولین دور میں استاد کادرجہ دیا ‘ حالانکہ جب کسی پردولت ‘ شہرت یوں برستی ہے جیسے کہ فردوس جمال پرتھی اور ہے ‘ تو وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے’ اپنے پرانے دنوں کے ساتھیوں کووہ مقام نہیں دیتا جوماضی کی حقیقتوں کا درجہ رکھتے ہیں ‘ فردوس جمال اب نہ صرف لاہور بلکہ کراچی کی ڈرامہ انڈسٹری کے ایک اہم فنکار ہیں اوران پردوسرے کچھ لوگوں کی طرح کسی خاص کردار کی چھاپ بھی نہیں لگائی جاسکتی ‘ بلکہ وہ حقیقتاً ایک ورسٹائل اداکار ہیں جنہیں جس بھی کردار میں ڈالیں وہ اس میں بالکل ایک نگینے کی طرح فٹ ہو کراپنی چمک سے ماحول کوچار چاند لگا دیتے ہیں ‘ یعنی
یہ تجربات کتابوں میں تھوڑی لکھے ہیں
بہت سے سال لگے ‘ سال بھی جوانی کے
اب یہ دل خراش خبرآئی ہے کہ فردوس جمال کو کینسر ہو گیا ہے ‘ خبر پڑھ کر دل بہت دکھی ہوا ‘ مگراس سے بھی زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ پشاور کو عالمی سطح پرچار چاند لگانے والے اس خوبصورت دل اورہمدرد انسان کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے ایک حرف تسلی بھی سامنے نہیں آیا’صوبائی حکومت کے متعلقہ ادارے بھی خاموشی کی بکل اوڑھے چپ سادھے ہوئے ہیں اور تواور فنکار برادری بھی لب بستہ دکھائی دے رہی ہے ‘ اس لئے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنے میں کیا امر مانع ہے جنہوں نے فردوس جمال سے رابطہ کرکے انہیں تسلی دی اورمکمل علاج کا عندیہ بھی دیا ‘ بقول ظفراقبال
بس ایک شام ہمیں چاہئے ‘ نہ پوچھنا کیوں
یہ بات اور کسی شام پراٹھا رکھنا
مدد کی تم سے توقع توخیرکیا ہو گی
غریب شہر ستم ہوں ‘ مرا پتا رکھنا

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے