مملکت خداداد کے 75 سال

وطن عزیز اپنی سیاسی زندگی کی 75 بہاریں دیکھ چکا ہے لیکن بانیان پاکستان کے خواب کے مطابق، فلاحی تو درکنار، نہ تو ہم اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بناسکے اور نہ ہی جمہوری۔اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کے لئے ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کے نذرانے اس لئے پیش کئے تھے کہ یہ ملک دنیا میں اسلام کا مضبوط قلعہ بن کر ابھرے گا لیکن آج پون صدی گزرجانے کے بعد بھی ہم تاج برطانیہ کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے ہوئے ہیں اور اسلامی قوانین کے نفاذ کو رجعت پسندی، قدامت پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے دین کو ترقی کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ 75 سال کا سفر تو طے کرچکے لیکن ابھی تک نہ تو ہمیں اپنی منزل کا پتہ ہے، نہ ہم اپنے لئے اہداف کا تعین کرسکے ہیں اور نہ ہی ان اہداف کے حصول کے لئے کسی قابل عمل طریقہ کار کا تعین کرسکے ہیں۔ ہم نہیں جانتے ہم کہاں جارہے ہیں۔ ہم نے اپنے سیاسی سفر کے لئے کسی سمت کا تعین ہی نہیں کیا ہے۔ ہمارا سیاسی سفر بھلے ہی ماہ و سال کے حساب سے آگے بڑھ رہا ہو لیکن عملی لحاظ سے اس سفر پر جمود طاری ہے۔ ہمارا جمہوری سفر وقفے وقفے سے سیاستدانوں کی ناقص کارکردگی کی بدولت آمریت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے تو ہم پوائنٹ زیرو سے اپنے جمہوری سفر کا دوبارہ آغاز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مملکت خداداد نے اپنی 75 سالہ سیاسی تاریخ میں آدھے سے زیادہ عمر آمریت میں گزاری ہے۔ ہم معاشی میدان میں خطے کے چھوٹے اور کمزور ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔ ہم نے 1984 سے آئی ایم یف سے سود پر قرضہ لینا شروع کیا اور ابھی تک کوئی بائیس پروگرام کر چکے ہیں لیکن ہماری معاشی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان میں ہر بچہ تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار کے قرض کا بوجھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ عوام بھاری ٹیکسوں تلے رل رہے ہیں لیکن سیاسی اشرافیہ سب اچھا ہے کی رٹ لگائے آرام سے اقتدار کے ایوانوں میں اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ہم بڑے فخر سے اپنے آپ کو زرعی ملک کہہ کر پکارتے ہیں لیکن آج بھی اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے ہم زرعی اجناس کو باہر سے منگواتے ہیں۔اسی زرعی ملک میں لوگ آٹے کی ایک بوری کے لئے سارا دن قطاریں بنائے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم بلا شبہ ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن اسی ایٹمی طاقت کے حامل ملک میں ہم توانائی کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے۔ دیہات تو دیہات ہیں دارالحکومت اسلام آباد میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ جب سے مملکت خداددا دنیا کے نقشے پر ایک ملک کی حیثیت سے نمودار ہوا ہے، ہم تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ کبھی سیاسی پکڈنڈی پر چلتے ہوئے احتیاط سے موڑ کاٹنے کے لئے کہا جاتا ہے تو کبھی معاشی پل صراط کو عبور کرتے ہوئے یہی مشورہ دیا جاتا ہے۔نہ ہی یہ موڑ ختم ہورہا ہے اور نہ ہی ہمارا یہ نازک دور۔ اوراگر خدا خدا کرکرکے کہیں اس حالت سے باہر نکلنے کی ایک ناکام کوشش کرتے بھی ہیں تو حالت جنگ میں چلے جاتے ہیں۔ پچھلے تقریباً دو دہایئوں سے عوام حالت جنگ میں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ بے چارے عوام ہی کو لڑنا پڑرہا ہے۔ آج ایک بار پھر ملک پر دہشت گردی کے منحوس سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ کسی خون چکان واقعے کے بعد ہمارے سیاسی لیڈروں کو فقط اتنی سی بات کہنی پڑتی ہے کہ ہم دہشت گردوں کو اسی طرح کے حملوں کی اجازت نہیں دینگے۔ ارے بابا دہشت گردوں کو خود کش حملہ کرنے کے لئے اجازت تھوڑی لینی پڑتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہو یا معاشی بحران، دہشت گردی کی جنگ ہو یا قدرتی آفات کی تباہ کاریاں، ساری حالتوں میں قربانی عوام سے مانگی جاتی ہیں۔سیاستدان اقتدار کے ایوانوں میں اپنی باری مکمل کرکے لندن، دبی، امریکہ اور آسٹریلیا میں جاکے اپنے محلات سے عوام کی بے بسی کا تماشہ دیکھتے ہیں اور جب دوبارہ انتخابات کا موسم آتا ہے تو انہیں بھی وطن کی مٹی کی محبت کھینچ لاتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ہمارے یہ لیڈر واپس آتے ہیں تو ایئرپورٹ پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر ناچتے گاتے، ٹوپیاں اچھالتے اور ان کی شان میں نعرے لگاتے ہوئے موجود ہوتا ہے۔ اس میں قصور ان سیاستدانوں کا نہیں جو عوام کے سروں پر اوپرچڑھتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں بلکہ ہم عوام کا ہے جو اس بات کا ادراک کرنے سے عاری ہیں کہ ہمارے یہی سیاسی مسیحا ہماری سادہ لوحی، کم علمی اور پر خلوص محبت کا کیسے مذاق اڑاتے ہیں۔اس ملک کے ماہ وسال اور اس قوم کی تقدیر تب تک نہیں بدلے گی جب تک عوام اس بات کا شعور حاصل نہ کرلے کہ اس ملک کی تقدیر ان سیاستدانوں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ عوام کے ہاتھ میں ہے اور اس ملک کا ایک ایک فرد اس ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ یہ تارہ ٹمٹماتا رہے گا تو اس ملک کے افق پر روشنیاں جگمگاتی رہیں گی۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا