آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب کی تذویراتی اہمیت

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد بیرون ملک کے اپنے پہلے دورے کے تحت سعودی عرب کا مفید دورہ کیا ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ سال وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے بیرونی دورے کیلئے سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا تھا۔ بلاشبہ دونوں برادر ممالک میں دائمی روحانی تعلق سے لے کر بہت کچھ مشترک ہے، چنانچہ یہ خصوصی دوطرفہ تعلقات باہمی ہم آہنگی کی ایک منفرد علامت ہیں۔ دونوں ممالک کا جغرافیائی محل وقوع بھی انہیں مستقل چوکس رہنے اور باقاعدہ باہمی مشاورت کا سلسلہ برقرار رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ سپہ سالار نے سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے تفصیلی ملاقات کی، جس کے بعد سعودی وزیر دفاع نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ملاقات میں سٹریٹجک شراکت داری کے ساتھ ساتھ عسکری و دفاعی تعاون کی موجودہ سطح کا جائزہ لیا گیا۔ دونوں عہدیداروں نے دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے طریقوں و ذریعوں کی بھی نشاندہی کی۔ اس کے علاوہ برادر ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی اور پائیداری پر زور دیا گیا۔
درحقیقت سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے 1950ء کی دہائی میں دوستی کے معاہدے پر دستخط کئے اور پھر اس پر اسکی روح کے مطابق عمل بھی کیا۔ پاکستان نے آپریشن ” ڈیزرٹ سٹارم” یعنی صحرا کا طوفان میں سعودی عرب کو فوجی تعاون فراہم کیا جبکہ مؤخر الذکر نے ناگہانی آفات سے نمٹنے سمیت ضرورت کے وقت ہمیشہ پاکستان کی مدد کی۔ اسی طرح دفاعی تربیتی پروگرام مسلسل اور جامع رہے ہیں، جن میں تینوں افواج شامل ہیں، سعودی عرب ایک وسیع رقبہ اور سٹریٹجک مقام رکھتا ہے، جو توانائی کے اہم وسائل کو دنیا کے کونے کونے میں برآمد کرتا ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں اسے اپنی بری فوج، فضائیہ اور بحریہ کو پوری طرح لیس اور تربیت یافتہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے دو محاذوں کی صورتحال اتنی ہی چیلنجنگ ہے جتنی پاکستان کی ہے۔ خلیج سے برآمد ہونے والے توانائی کے وسائل کا بڑا حصہ پاکستان کے پانیوں سے گزرتا ہے اور دونوں فریقوں کیلئے ضروری ہے کہ تیل و گیس کے ٹینکرز خلیجی پانیوں، خلیج عمان، بحر ہند سے ہوتے ہوئے جزیرہ صومالیہ اور بحیرہ احمر تک بحفاظت پہنچیں۔ پاکستان بحری تجارتی جہازوںکی حفاظت اور سکیورٹی کے لیے پرعزم ہے، جو بحرین میں قائم کمبائنڈ ٹاسک فورس کے ساتھ اس کی طویل وابستگی سے ثابت ہوتا ہے، یہ ایک مؤثر بین الاقوامی بحری منصوبہ ہے جس نے خطے میں بحری تجارت کو کامیابی سے تحفظ فراہم کیا ہے۔
پاک بحریہ کئی بار کمبائنڈ ٹاسک فورس کی قیادت کر چکی ہے۔ آرمی چیف سعودی عرب کے بعد ایک اور اہم خلیجی ملک متحدہ عرب امارات بھی پہنچے۔ مشرق وسطیٰ کی ان دونوں ممالک میں بڑی تعداد میں پاکستانی تارکین وطن مقیم ہیں جو نہ صرف ان ممالک کی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ اہم زرمبادلہ بھی وطن واپس بھیجتے ہیں۔ اگرچہ سعودی مسلح افواج خطے میں بہترین انداز میں لیس ہیں لیکن انہیں وسیع علاقے پر پھیلے وسائل کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بار ہا واضح طور پر کہا ہے کہ حرمین شریفین کی حفاظت پوری امت مسلمہ کے لیے انتہائی ضروری ہے اور افواج پاکستان اس کو یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گی۔ انتہاء پسندی اور دہشت گردی پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ دشمن ہیں۔ اسی طرح نفسیاتی جنگیں، سائبر حملے اور معیشت کو نقصانات ایسے نئے خطرات ہیں جو باہم مل کر ففتھ جنریشن وار کو جنم دیتے ہیں، چنانچہ اس تناظر میں برادر ممالک کے درمیان ابدی چوکسی اور وقتاً فوقتاً مشاورت ضروری ہے۔
چونکہ دہشت گردی دونوں ممالک کو درپیش مشترکہ خطرہ ہے، پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردوں کے خلاف ایک طویل جنگ مؤثر انداز میں لڑی ہے چنانچہ اس سلسلے میں اپنے تجربات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے تاکہ اس ناسور پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جا سکے۔ معاشی ترقی کے لیے امن و استحکام ضروری ہے اور دہشت گرد انتشار پھیلا کر امن و استحکام تباہ کر دیتے ہیں، خفیہ معلومات کے بروقت تبادلے سے دہشت گردوں کو عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اقتصادی ترقی ایک اور مؤثر ذریعہ ہے۔ پاکستان جدید زراعت اور لائیو سٹاک کی ترقی کے ذریعے دفاعی پیداوار و غذائی تحفظ میں تعاون کے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب خلیجی توانائی کے وسائل پاکستان کے راستے چین پہنچنا شروع ہو ں گے۔ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک کے ساتھ چین کے دوستانہ تعلقات اور اقتصادی روابط میں اضافہ سہ جہتی تعاون کے لئے امید افزاء ہیں۔ چونکہ بین الاقوامی تعلقات کے اسلوب اور جزئیات تبدیل رہی ہیں۔ قدیم اصولوں، سخت پالیسیوں اور سکیورٹی بلاکس کو لچکدار انداز سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کا مظاہرہ روس یوکرین جنگ کے دوران دیکھا گیا ہے جہاں پاکستان کی پالیسی جی سی سی ممالک جیسی تھی۔ بلاشبہ حالیہ دورے نے نئے آرمی چیف کو سعودی قیادت کے ساتھ مراسم بنانے کا ایک اچھا موقع فراہم کیاتاکہ مستقبل میں دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ د یا جا سکے ۔( بشکریہ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟