قدرتی گیس کے بقایاجات والے بل

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)نے یکم جولائی2022سے گیس 74فیصد تک مہنگی کرنے کی منظوری دے دی۔فیصلے کے مطابق سوئی ناردرن کے لئے گیس کی موجودہ قیمت545روپے 89پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جو کہ406روپے 28پیسے مہنگی ہونے کے بعد 952روپے 17پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی ہے۔اوگرا فیصلے پر اطلاق وفاقی حکومت کے فیصلے کے بعد ہوگا، وفاق نے منظوری نہ دی تو فیصلے پر ازخود عملدرآمد ہو جائے گا،گویا وفاقی حکومت کا اس میں کردار ہی نہیں اور اگر ہے تو بس واجبی اور غیر موثر سا۔ سوئی گیس کی قیمت میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی2022سے ہوگا۔گیس کی قیمتوں میں گزشتہ تاریخوں میں اضافے کے اطلاق کے بعد صارفین کو موجودہ اضافی بلوں کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال کے بقایا جات کی بھی ادائیگی کرنی ہو گی جو صارفین پربڑا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں گزشتہ تاریخوں میں اضافہ مہینوں کے حساب سے ہوتی ہے اور عوام سے تقریباً نصف سال کے گزشتہ استعمال شدہ گیس وبجلی کے ادا شدہ بلوں کے باوجود گزشتہ بقایاجات کی مد میں وصولی ہوتی ہے حکومت کا ہر فیصلہ عوام پر بم گرانے کے مترادف ثابت ہوتا ہے لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں مہنگائی آٹا بحران تو اب معمول اور گیس و بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ اب عوام کاگویا مقدر بن گیا ہے عوام کو ریلیف دینے کی کوئی سعی نظر نہیں آتی اورایسا لگتا ہے کہ حکومت خواہ وہ سابقین کی ہو یا موجودہ کسی کو بھی عوام کی حالت زار سے کوئی سروکار نہیں74فیصد اضافے سے گیس صارفین پر تین سو ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو اور صنعتی و تجارتی ہر قسم کے صارفین پر یکساں منفی اثر پڑتا ہے بالخصوص کپڑے اور کھاد کی صنعت کا قدرتی گیس ایک لازمی جزو ہے حکومت گیس کی قلت کے مسئلے کو بھی قیمتوں میں اضافہ کرکے حل کرنے کی سعی میں ہے حالانکہ حکومت کو اس مسئلے کا حل گیس کے سستے ذخائر کی تلاش اور حصول کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت تھی عوامی سطح پر اس مسئلے کا حل اور حکومت کی مدد گیس کے استعمال میں کفایت شعاری اختیار کرنے سے ہی ممکن ہوگا حکومت کے اس اقدام کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک جانب ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر ختم ہوئے جارہے ہیں مگر حکومت سیاسی بنیادوں پر مزید گیس پائپ لائنیں بچھانے میں مصروف نظر آتی ہے ہمارے منصوبہ سازوں کو اس پالیسی پر نظر ثانی کرکے خواہ مخواہ کے وسائل کے ضیاع سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے ساتھ ملک میں قدرتی گیس کی چوری اور لائن لاسز کی روک تھام کے لئے سجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔
بے چینی کیوں؟
اعلیٰ پولیس افسروں کے رویہ سے دلبرداشتہ پولیس اہلکاروں کا صوبہ کی سطح پر گروپ تشکیل دینے کے لئے متحرک ہونا پولیس فورس میں بے چینی کا مظہر ہے بتایا جاتا ہے کہ کانسٹیبل سے انسپکٹر رینک تک کے افسر اور اہلکار وں کو اپنی قیادت سے سخت تحفظات ہیں۔جس کا بڑا سبب پولیس اہلکاروں کے ساتھ اعلیٰ افسروں کی جانب سے نا انصافی اور سرد مہری کا رویہ ہے۔پولیس کے ماتحت عملہ خیبر پختونخوا پولیس امن کی خاطر قربانیاں تو دے رہا ہے لیکن ان کو قربانی کا صلہ نہیں دیا جا رہا ۔اہلکاروں کو دو سال بعد بمشکل انسداد پولیو مہمات کا اعزا ز یہ ملتا ہے۔ ان حالات سے دلبرداشتہ پولیس اہلکاروں نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا سہارا لینا بھی شروع کر دیا ہے۔پولیس ایک منظم فورس اس وقت ہی کہلا سکتی ہے جب اس کے اعلیٰ افسران سے لے کر سپاہی تک ایک نظم و ضبط کی پابندی کریں لیکن خیبر پختونخوا پولیس میں افسران کی توپانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں والی حالت ہے جبکہ ماتحت افسران و عملہ کے مسائل حل کرنے اور ان کے ورثاء کی دیکھ بھال کی صورتحال تسلی بخش نہیں جس کے باعث پولیس کے عملے میں بددلی اور مورال کا گرجانا فطری امر ہے یہ خطرے کی گھنٹی بجنے والی صورتحال ہے جس کا بروقت ادراک کرتے ہوئے اصلاح احوال پر توجہ دینی چاہئے اور پولیس اہلکاروں کو بروقت معاوضہ کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہئے پولیس اہلکاروں کو مطمئن کرکے ہی ان سے مستعدی و فرض شناسی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
نامناسب طرزعمل
اسلامیہ کالج پشاور کے طالب علموں اور پولیس اہلکاروں کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں پولیس جس رویے کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ وردی اور قانون کا تقاضا نہیں گرفتاری کے بعد توہین آمیزسلوک کی پولیس کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پولیس کی جانب سے طالب علموں کو زدوکوب کرتے ہوئے ان کو لاتیں مارنے اور دھمکیوں کی ویڈیو وائرل ہونے کے خلاف طلباء کا سراپا احتجاج بن جانا فطری امر ہے۔طلباء کی جانب سے پرامن احتجاج پراس طرح کی کاررائی کی اولاً گنجائش نہیں طلباء کا شیروانی نہ پہننایا اس سے انکار اتنا بڑا جرم نہیں کہ ان کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش