مسئلہ گورننس یا مہنگائی؟

مسئلہ مہنگائی کا نہیں ہے اس ملک کا مسئلہ گورننس کا ہے۔ آٹا بحران کی مثال ہی لے لیں۔ گودام بھرے پڑے ہیں لیکن آٹے کے انتظار میں ایک غریب شخص جان سے گیا۔ آٹے کے لئے بھگدڑ کا شکار ہوا۔ قطار میں کھڑے ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے اب تک اس قوم نے نہیں سیکھا۔ چارسدہ سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شہری باقاعدہ دکھا رہا ہے کہ کس طرح دومن گندم کی بوریوں سے گودام کے گودام بھرے ہیں لیکن صوبے میں گندم کی قلت ہے۔اس کے بعد نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے( ن) لیگ کے رکن اسمبلی اختیار ولی نے بھی ایک مقامی گودام پر چھاپہ مارا تو وہاں بھی گودام کے گودام بھرے پڑے تھے۔ اسی دوران ایک اور وڈیو شیئر کی گئی کہ جس میں شہری نے درجن بھر ٹرالے دکھا کر بتایا کہ کس طرح آٹے کی بوریوں سے لدے ٹرک بارڈر پار افغانستان جا رہے ہیں۔ پھر آٹا ناپید کیوں؟ پھر روٹی کی قیمت آسمان سے باتیں کیوں کر رہی ہے؟ کیا اس میں بھی اسرائیل، امریکہ کی چال ہے یا کسی غیرملکی سازش کا شاخسانہ جس کے لئے یہاں کے میرجعفر اور میر صادق استعمال ہو رہے ہیں۔ دس سالہ پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ اس طرح ہو رہا ہے کبھی سوچا نا تھا۔ لیکن آفرین ہے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹیموں پر کہ جس نے اس ابتدائی صورتحال کی ذمہ داری پی ڈی ایم پر ڈال دی۔ پختونخوا حکومت اقتدار میں رہ کر بھی عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ صوبے میں ان کی نہیں ن لیگ، جمیعت علما اسلام، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت ہے۔لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے کہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس نے دس سالوں میں صوبے کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں۔ قابل ڈاکٹرز ہسپتال چھوڑ چکے ہیں جب کہ ریٹائرڈ ڈاکٹروں کو پنشن سمیت دوبارہ بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا ذرا اس بات کی وضاحت تو کردیں کہ ایک ڈاکٹر جب ریٹائر ہوجائے تو پھر اپنی پنشن اور مراعات کے ساتھ ساتھ بھاری تنخواہ کے ساتھ دوبارہ کیسے تعینات ہو سکتا ہے۔ پھر تو کالج کے پروفیسرز بھی جب ریٹائرڈ ہو جائیں ان کو دوبارہ اس سے بھاری تنخواہ پر پنشن اور مراعات سمیت تعینات کیا جانا چاہئے۔ اس طرح پولیس اہلکار جب ریٹائر ہو جائے تو اسے بھی تنخواہ میں اضافہ کے ساتھ پنشن اور مراعات برقرار رکھتے ہوئے دوبارہ اسی محکمہ میں تعینات کیا جائے۔ وزیر موصوف بتائیں کہ آٹے کے بحران کی طرح لگتا ہے کہ صوبے کا معاشی بحران بھی ایک ڈھکوسلہ ہے۔ انہوں نے نا تو وضاحت دینی ہے اور نا جواب لیکن آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں یہ گورننس کا مسئلہ ہے یا اقتصادی بدحالی کا؟ پختونخوا کے کسی بھی شہر کا دورہ کریں ایک ہی شہر کے دو مختلف حصوں میں آپ کو روٹی کے معیار، مقدار اور قیمت میں فرق ملے گا۔ یہ صوبہ ایک ہجوم بن گیا ہے۔ یوں سمجھئے زمین کا ایک ٹکڑا ہے جہاں ایک بھیڑ اکھٹی ہوئی ہے اور سب چیخ چیخ کر اپنی فرسٹریشن نکال رہے ہیں۔ کسی روز اس صوبے کے کسی بازار میں نکل کر دیکھئے اور لوگوں کو سنیئے کہ وہ کہتے کیا ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ کہ اب بھی یہ اصل مسئلہ سے واقف نہیں ہیں۔ ان کو یہ بھی احساس نہیں ہے کہ اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کو دس سال ہو چکے ہیں۔ وہ کوسنے کے لئے نام بھی لیں گے تو حزب اختلاف کے رہنمائوں کا کہ ان کی لوٹ مار سے یہ ملک اس جگہ تک پہنچا ہے۔ جب یہ سوچ کی سطح ہو تو وہاں آپ گورننس کی کیا توقع رکھتے ہیں۔ جب ایک عام شہری کو یہ بھی معلوم نا ہو کہ صوبے میں حکومت کا کردار کیا ہے۔ آج بھی پختون اس روایتی سوچ سے باہر نہیں نکلا کہ ہم ایک بہادر قوم ہیں اور اسلحہ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ کسی بھی اسلحے کی دکان پر جاکر پوچھئے تو معلوم ہوگا کہ جس تیزی کے ساتھ سکول کی فیس، ادویات، آٹے کی قیمتیں بڑھی ہیں اسلحہ کے معاملہ میں جدید اسلحہ آپ کو سستا ملے گا۔ بہت کم ہی کسی اسلحے کی قیمتوں میں روز روز کمی بیشی نظر آئے گی۔ کیونکہ ہماری ترجیحات ہی غلط ہیں۔ ایک نظر ضم اضلاع پر دوڑائیں۔ پورے قبائیل عسکریت پسندی کے خلاف نکلے۔ آپریشن ہوئے اور خون بہا۔ لاکھوں لوگ دربدر ہوئے لیکن صوبے میں حکمران جماعت کے سربراہ عمران خان نے بڑے فخر سے بتایا کہ وہ تو ان ہزاروں عسکریت پسندوں کو واپس ضم شدہ اضلاع میں لانا چاہتے تھے لیکن غیر محسوس انداز سے کہا کہ فوج نے ان کا منصوبہ ناکام کیا۔ اب خوب سوچ سمجھ کر اور یہ تصور کرکے کہ وہ لوگ یہاں آتے اور قبائیل کی کیا حالت ہوتی جاکر ان علاقوں کے پشتونوں سے جاکر پوچھیں وہ عمران خان کا نعرہ بلند کرکے کہیں گے کہ خان غیرت مند ہے۔ اس نے امریکہ کو انکار کیا۔ اداروں نے اس کے خلاف سازش کی۔ ہم آج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قبائل آج بھی عمران خان کو مانتے ہیں اور طالبان کی واپسی اپنے علاقوں میں چاہتے ہیں۔
مسئلہ دو بڑی قومی سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن سابق صدر آصف علی زرداری اور ن لیگ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی گویا پختونخوا کے حوالہ سے فاتحہ پڑھ لی ہے۔ گویا ان دو جماعتوں نے پختونخوا کو صوبائی حکومت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان دونوں قائدین کی ایسی کوئی سرگرمی وفاقی حکومت کے قیام کے بعد ہمیں نظر آئی کہ ہم کہہ سکیں کہ وفاق کو صوبے کے عوام کے مسائل کا احساس ہے۔ وزیراعظم سیلاب کے دنوں میں کچھ گھنٹوں کے لئے آئے اور پشاور میں قیام کی زحمت بھی گورا نا کی۔ ایسے میں عوام کرے تو کیا کرے۔ ظاہری بات ہے کہ اب بات سیاست سے آگے نکل چکی ہے۔
پختونخوا کے عوام کو چاہئے کہ وہ مسائل نہیں مسائل کے حل کا مطالبہ کریں۔ سوال کریں کہ ان دس سالوں میں جس میں لگ بھگ چار سال وفاق میں بھی ان کی حکومت تھی اور ادارے ان کی پشت پر تھے ان لوگوں نے کیا کیا؟ صحت اور تعلیم کا کیا بنا؟ ضم اضلاع کے لئے کیا منصوبہ ہے یا ان اضلاع کو دوبارہ طالبان کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا تھا؟ کیا ان کی گورننس ناکام ہو چکی تھی اور پورا صوبہ بالآخر سیاسی جماعتوں کی بجائے طالبان کے حوالہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا؟ مسئلہ مہنگائی کا نہیں اس صوبے کا مسئلہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہوکر آنے والے غذاب کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن