آبادی کی روک تھام اور ریاستی ذمہ داری

سال 2023 ء کا آغاز ہو چکا ہے، لیکن ہمارے سامنے آج بھی قومی نوعیت کے ایسے کئی مسائل موجود ہیں جو مسلسل نظرانداز ہوتے رہے ہیں، اگرچہ ان مسائل کے واضح حل موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے حوالے سے عزم کا فقدان پایا جاتا ہے، ہمارے ہاں جن اہم شعبوں میں پیشرفت بدستور جمود کا شکار ہے، ان میں آبادی اور تعلیم سرفہرست ہیں، یہ دونوں شعبے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ان کی موجودہ نوعیت ہر اس مسئلے کا بنیادی سبب ہے جو پاکستان کی ترقی کے عمل کو متاثر کر رہا ہے، پچھلے دس سال ہمارے تعلیمی رحجانات میں معمولی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں، بنیادی تعلیم کے لئے بچوں خصوصاً بچیوں کے اندراج کی شرح بہت کم ہے اور اس ایک دہائی میں شرح پیدائش میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، جب تعلیم کے حوالے سے ریاستی ذمہ داری پر بحث کی جاتی ہے تو ہماری آبادی میں سالانہ دو فیصد اضافے کی شرح اس حوالے سے مایوسی کا باعث بنتی ہے، ہماری آبادی کی صورتحال سے وہ لوگ بخوبی واقف ہیں جو اہمیت رکھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ انسانی اور دوسری ترقی کے درمیان تعلق کو نہیں دیکھتے؟ بدقسمتی سے ہم اکثر یہ بہانے سنتے ہیں کہ آبادی ایک صوبائی معاملہ ہے ، آبادی پر کنٹرول ہمارے مذہب کے خلاف ہے یا یہ پھر سیاسی لحاظ سے یہ ایک نامناسب موضوع ہے، چنانچہ آبادی پرکنٹرول میں تعطل پر فرسودہ تصورات غالب ہیں۔
آبادی پرکنٹرول کی اصطلاح سے بہت سی غلط فہمیاں جڑی ہیں، یہ کوئی طے شدہ طریقہ کار نہیں ہے کہ ریاست کو سختی سے آبادیاتی چیلنجوں سے نمٹنا چاہیے بلکہ اس حوالے سے حقوق کی بنیاد پر حکمت عملی سرفہرست ایجنڈا ہونا چاہئے، سیاسی حقوق دینے کا سوال ہو یا شہریوں کو خدمات کے حقوق دینے کا، ریاست کا نظریہ اور سمت تبدیل ہونی چاہیے، 50 سال قبل مصنف اور سیاسی امور ماہر محمود ممدانی نے اندرا گاندھی کی آبادی پر کنٹرول سے متعلق نافذ کردہ ہنگامی حالت کے بھارتی پنجاب کے ایک گاؤں پر اثر کے بارے میں ایک انقلابی کتاب ‘دی میتھ آف پاپولیشن کنٹرول” لکھی، اس ہنگامی حالت کے دوران بھارت کی آبادی کی روک تھام کی پالیسی بری طرح ناکام ہوگئی تھی، یہ اقدام اندرا گاندھی کے زوال اور ریاستی پالیسیوں پر شدید عدم اعتماد کا باعث بنی، چنانچہ صرف چند میل کے فاصلے پر اگر ریاست (پاکستان) آبادی پر کنٹرول کی اس طرح کی کوئی سخت پالیسی اپناتی ہے تو ہم اس کا نتیجہ کچھ مختلف ہونے کی توقع نہیں کر سکتے، جہاں آبادی پر کنٹرول کو پہلے سے ہی ایک منفی اقدام سمجھا جا رہا ہے اور زیادہ تر لوگوں نے اسے اپنی اقدارکو چھینے جانے کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر ردکر دیا ہے، اس لئے آبادی پر قابو پانے کی سخت پالیسیوں کی چین اور بھارت کی مثالوں کی پیروی نہیں کی جا سکتی، بلکہ اس کی بجائے ہمیں ان ممالک کی تقلید کرنی چاہیے جنہوں نے اپنی آبادی میں اضافے کی شرح میں کامیابی سے کمی لائی ہے، خطے میں اس کی بہت سی واضح مثالیں موجود ہیں، ایران نے اپنی صحت عامہ کی خدمات کے لیے مانع حمل ادویات کی دستیابی یقینی بنائی، بنگلہ دیش نے کمیونٹی آؤٹ ریچ سروسز اور خواتین کو بااختیار بنانے میں سرمایہ کاری کی ، اسی طرح سعودی عرب نے خواتین کو نجی شعبے میں مانع حمل ادویات تک رسائی کی اجازت دی۔
پاکستان کو بھی ایسے ہی حل فراہم کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے جو خاندانوں کو اپنی خواہشات اور بنیادی حقوق کو پورا کرنے کے قابل بنائیں، آبادی کا نیا بیانیہ اس امرکا متقاضی ہے کہ ریاست کا کردار کنٹرولر یا روک ٹوک کرنے والا نہیں بلکہ اختیار دینے والاہونا چاہیے، ریاست کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ لوگوں کے کتنے بچے ہوں؟ بلکہ اس کی بجائے اسے خاندانوں کو خود یہ فیصلہ کرنے قابل بنانے کے لیے ضروری معلومات اور ذرائع فراہم کرنا چاہئیں، ریاست کو خواتین کے لیے انتخاب کا دائرہ بڑھانے اور خدمات تک رسائی کے ذریعے تبدیلی کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایسے واضح اعداد و شمار بھی موجود ہیں جو ریاستی اداروں اور عوام خاص طور پر غریب طبقے کے درمیان لاتعلقی کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور پر جب لاکھوں کی تعداد میں خواتین نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جاتی ہیں تو غریب کے تولیدی انتخاب کی مذمت کے لیے بے معنی باتیں کی جاتی ہیں، کئی بااختیار لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ دراصل لوگ زیادہ بچے چاہتے ہیں، جب ساڑھے چھ کروڑ خواتین خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات سے محروم ہیں، سالانہ بائیس لاکھ خواتین نہ چاہتے ہوئے حاملہ ہو جائیں اور ہر سال 14 لاکھ بچے نہ چاہتے ہوئے بھی پیدا ہوتے ہوں تو اس طرح کی باتیں کرنا سراسر ذمہ داری سے جان چھڑانے کے مترادف ہیں۔
خواتین یہ فیصلہ کر سکتی ہیں کہ وہ کتنے بچے اور کب چاہتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی خواتین، جنہیں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی نہیں ہے، وہ بے اختیار ہیں، وہ اپنی صحت کی دیکھ بھال کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتیں یا اپنے گھروں سے باہر نہیں جا سکتیں، انہیں اپنے فیصلوں کے تحفظ کے لیے ریاستی تعاون درکار ہے، پھر انہیں رعایتی ٹرانسپورٹ اور خدمات کے ذریعے رضاکارانہ خدمات تک رسائی بھی فراہم کی جانی چاہیے، اسی طرح خاندانی منصوبہ بندی پر مؤثر عملدرآمد کے لئے بھرپور تشہیری مہم چلائی جانی چاہئے، حکومت کو یہ اقدامات نجی شعبے کے ساتھ مل کر کرنا چاہئیں، شہریوں اور اداروں سے سستی رہائش، صحت اور فاصلاتی تعلیم جیسی خدمات کے حوالے سے رائے اور تجاویز بھی لی جائیں، ابھی بھی وقت ہے کہ آبادی کے بارے میں ریاستی حکمت عملی و مؤقف میں تبدیلی لائی جائے، اسے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ صورت حال اب بھی قابل نجات ہے۔
(بشکریہ، ڈان، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا