جس رہ سے چلے تیرے دروبام ہی آئے

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھ کر ایک بھارتی فلمی گانے کا مکھڑا یاد آگیا’ تصویرمیں صوبہ خیبر پختونخوا کے (سابق) وزیراعلیٰ اورقائد حزب اختلاف ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ‘ دونوں کی یہ تصویر کیمرے کی آنکھ نے اس وقت محفوظ کر لی تھی جب بڑی ردو قدح کے بعد بالآخر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ سپیکر ہائوس میں ملاقات پرآمادہ ہوئے اور صوبے کے لئے نگران وزیر اعلیٰ کے نام پربالآخر متفق ہوگئے ‘ تو دونوں طرح ایک دوسرے کے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اس پر ہی فلمی گیت یاد آگیا تھا کہ
دیکھا ہے پہلی بار
ساجن کی آنکھوں میں پیار
حالانکہ گزشتہ تقریباً چار سال کے عرصے میں دونوں ایک دوسرے پر محاورةً لعن طعن ہی کرتے رہے ہیں اور صوبے کے اندر سیاسی کھیل کے حوالے سے بعد المشرقین کا شکار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب (سابق) وزیر اعلیٰ نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اکرم درانی کو وزیر اعلیٰ ہائوس آنے کی دعوت دی تاکہ صوبے کے نگران وزیر اعلیٰ کے نام پراتفاق رائے کیا جا سکے تو اکرم درانی نے وزیر اعلیٰ ہائوس آنے سے انکار کرتے ہوئے گزرے چار سال کے دوران سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کے رویئے پرشدید تحفظات کا اظہار کیا’ تب طے پایا کہ یہ ملاقات سپیکر ہائوس میں ہوگی ‘کیونکہ پارلیمانی جمہوریت میں اسمبلی کا سپیکر (آئینی ‘ قانونی اور اخلاقی طور پر) غیر جانبدار ہوتا ہے’ حالانکہ گزشتہ چار سال کے اس عرصے میں جوجوکردار بھی غیر جانبداری کے تقاضوں کا خوگر ہونا چاہئے تھا ان سب نے اس لفظ غیر جانبداری کی کھل کربے حرمتی کی’ دھجیاں اڑائیںاور ہرموقع پر ثابت کیا کہ انہوں نے غیرجانبدای کا لفظ سیاسی ڈکشنری سے نکال باہر کر رکھا ہے ‘ یعنی کیا صدر مملکت ‘ کیاچیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ‘ کیا سپیکرو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی۔۔ اس کے باوجود اس آخری موقع پرجب عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی نے دوصوبائی اسمبلیوں کی کریا کرم کے بعد نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری پر بھی عدم اتفاق کی صورتحال کوجنم دینے کی پالیسی اختیارکی ‘ اس حوالے سے پنجاب میں معاملہ پارلیمانی کیمٹی سے بھی آگے جا کر الیکشن کمیشن کے پاس جا چکا ہے جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کا بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ نگران وزیر اعلیٰ کونہیں مانیں گے اوراسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا ‘ گویا پنجاب میں انہوں نے کھیڈا گے تے نہ کھیڈن دیاں گے کے غیر اصولی کھیل پرعمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے ‘ حالانکہ قصور تو سیاستدانوں کا ہے کہ پہلے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ‘ قائد حزب اختلاف کی جانب سے دیئے گئے ناموں پر عدم اتفاق کے بعد معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں بھی طے نہیں ہوسکا اور آئینی تقاضوں کے عین مطابق جب بال الیکشن کمیشن کے کورٹ میں جا پہنچا تو اب اس پر بھی اعتراضات اٹھانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ‘ تاہم خیبر پختونخوا کے متعلقہ دونوں رہنمائوں یعنی محمود خان اور اکرم درانی نے نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق کرکے پختون روایات کا بھرم رکھتے ہوئے اعلیٰ مثال قائم کردی ہے ۔
کیا راہ بدلنے کاگلہ ہمسفروں سے
جس رہ سے چلے ترے دربام ہی آئے
سوشل میڈیا پر ایک سوال بڑی تیزی سے وائرل ہو رہا ہے کہ 35 جمع 35 کتنے ہوتے ہیں ‘ اشارہ عمران خان کے ان 35 پنکچرز کے الزام کی جانب ہے جو انہوں نے پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ اور موجودہ چیئرمین کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی پرلگایا تھا کہ سیٹھی صاحب نے نواز شریف کو جتوانے کے لئے تحریک انصاف کے 35اراکین کوشکست سے دو چار سے دو چار کیا تھا اگرچہ نجم سیٹھی نے اس الزام کوعدالت میں چیلنج کیا مگر عمران خان نے عدالت میں پیش ہونے سے ہمیشہ کنی کترائی اوربہت عرصے بعد اسے ایک سیاسی بیان قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی ‘ تاہم یہ جوموجودہ 35 جمع 35 کا معاملہ ہے یہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے 35 ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے دوروزبعد مزید 35 ارکان کوبھی ڈی سیٹ کرکے بعض سیاسی رہنمائوں کے بقول انہی 35پنکچرز کی یاد دلا دی ہے ‘ جبکہ تازہ اطلاعات کے مطابق مزید 30 اراکین اسمبلی(تحریک انصاف) کو بھی ڈی نوٹیفائی کرنے کی کارروائی کی جارہی ہے اور ممکن ہے کہ اس کالم کے شائع ہونے تک 35 جمع 35 کے بعد مزید تیس ممبران کے ڈی نوٹیفائی ہونے سے سنچری مکمل کی جا چکی ہو’ اور جب ڈی نوٹیفائی کئے جانے والے 35ارکان کی خالی نشستوں پرایک بارپھرعمران خان کے(اکیلے ہی) الیکشن لڑنے کی اطلاعات آئیں تو اس طرح مزید 35 جبکہ ممکنہ طور پر مزید تیس حلقوں میں بھی عمران خان ہی گلیاں ہون سنجیاں تے وچ مرزا یارپھرے کی مانند یکہ و تنہا ہی امیدوار ہوسکتے ہیں ‘ ہاں ان نشستوں پر ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا جو خصوصی یعنی خواتین اور اقلیتی ارکان سے خالی کرائی گئی ہوں گی ‘ البتہ مقطع میں سخن گسترانہ کی طور پر خیبر پختونخوا کے ناصر موسیٰ زئی نے اپنے استعفیٰ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے سپیکر سے استدعا کی ہے کہ انہوں نے چونکہ اپنی مرضی سے استعفیٰ نہیں دیا اسلئے ان کا نام ڈی نوٹیفائی کرانے سے احتراز کیا جائے ‘ یاد رہے کہ ناصر موسیٰ زئی نے حال ہی میں جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کی ہے سو دیکھتے ہیں کہ صورتحال کیا بنتی ہے ‘ کیونکہ اگر وہ اپنے استعفیٰ کو غلط قرار دے رہے ہیں مگر ساتھ ہی تحریک انصاف چھوڑ کرجمعیت میں شمولیت اختیار کرلی ہے تو اب آئینی تقاضے کیا کہتے ہیں کیا وہ اب بھی اپنی اسمبلی نشست برقرار رکھ سکتے ہیں یاپھر ان پر فلور کراسنگ کا قانون لاگو ہوگا’ اس حوالے سے ماہرین آئین ہی کوئی رائے دے سکتے ہیں ۔ دوسری جانب تحریک انصاف چیخیں مار کرآسمان پر پر اٹھا لینے کے حوالے سے بقول مرزا غالب خامہ انگشت بدنداں کے اسے کیا لکھیئے ہی والے مصرعے میں پناہ ڈھونڈی جا سکتی ہے یعنی ان کی چیخوں پر ہم اپنی جانب سے بھلا کیا تبصرہ کر سکتے ہیں کہ سپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف ہی کے الفاظ دوہرا دیتے ہیں یعنی جب استعفے قبول نہیں کئے جارہے تھے(جائزہ لیا جا رہا تھا) تب بھی شور مچا رہے تھے اور اب جب ان کے استعفے قبول کرلئے گئے ہیں تو بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ گویا بقول شخصے این چہ بوالعجبی است؟ بہرحال یہ تو سیاست ہے اور سیاست میں بروقت چال چلنے ہی سے نتیجہ بولتا دکھائی دیتا ہے ‘ گویا ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ‘ رنگ بھی چوکھا آئے ۔ اور بقول شاعر
قیامت چیخ اٹھی ہے”چال” پراس فتنہ قامت کی
ارے ظالم قیامت کی ‘ ارے ظالم قیامت کی

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام