آٹا پھر مہنگا

بار بارآٹا بحران کا پیدا ہونا مارکیٹ میں آٹے کی قلت یا گندم کی کم سپلائی کے باعث ہے یا کچھ اور البتہ حالات سے اس میں پس پردہ عوامل کا کردارزیادہ نظر آتا ہے وگر نہ قیمتیں قدرے کم ہونے کے بعد اچانک اس میں اضافہ کاکوئی جواز اس لئے نہیں کہ مارکیٹ اور منڈی میں کوئی تیزی نہیں آئی ایسی صورت میں ذخیرہ اندوزی اورسمگلنگ میں دوبارہ اضافہ ہی اس کی بڑی وجہ ہوسکتی ہے عدالت کے نوٹس لینے کے بعد حالات میں وقتی طور پر بہتری آئی تھی اور انتظامیہ و محکمہ خوراک نے بھی عدالت کو جوابدہی کے خوف سے ہلچل کی تھی سیاسی حکومت کی رخصتی اور نگران حکومت کے قیام کے بعد اچانک موقع کی تاک میں بیٹھے عناصر نے سر اٹھایا ہے جس کا انتظامی طور پر پرسخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے ساتھ ہی مارکیٹ میں طلب ورسد کے توازن کو بہر قیمت برقرار رکھنے کے لئے مساعی کی ضرورت ہے ۔رخصت پذیر حکومت کے آخری دنوں میں سیاسی عناصر اوردیگر عناصر کا ذخیرہ اندوزوں سے گٹھ جوڑ اور سرکاری آٹا کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم کا عمل بحران اور قیمتوں میں منصوبہ بند اضافہ کا باعث تھا لیکن اب وہ عناصر اپنے اپنے علاقوں کو منتقل ہوکر انتخابی سیاست شروع کرچکے ہیں ایسے میں مافیا کی سرپرستی کون کر رہا ہے اور وہ کونسے عناصر ہیں جو صوبے میں ایک مرتبہ پھر آٹا بحران اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے درپے ہیں اس کا نگران وزیر اعلیٰ کو سخت نوٹس لینا چاہئے اور انتظامیہ و محکمہ خوراک کے حکام سے سختی سے باز پرس کرنی چاہئے اور ان کو فوری طور پر صورتحال کو معمول پرلانے کے اقدامات کا پابند بنایا جاناچاہئے۔پشاور کی مارکیٹ میں 20کلو آٹے کا تھیلا دو ہزار 700روپے میں فروخت کیاجارہا ہے دوسری طرف آٹاڈیلرزایسوسی ایشن کی جانب سے پشاور میں سرکاری آٹا کے کوٹہ میں سیاسی مداخلت اور کوٹہ لسٹ تبدیل کرنے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی دھمکی دی ہے اور مسئلہ حل کرنے کیلئے چیئرمین فلور ملز، آٹا ڈیلرز اور ڈپٹی کمشنر راشنگ کنٹرولرپر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی بھی تجویز پیش کی ہے ۔خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی صوبے میں جاری گرانفروشی کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے ضلعی انتظامیہ قیمتوں کے کنٹرول میں بے بس دکھائی دے رہی ہے صوبائی حکومت کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز’ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز’ اسسٹنٹ کمشنرز اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرز کو 24 انتظامی محکموں کا اختیاردے کر بااختیار بنادیاگیا ہے لیکن ان کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آتی عملی طور پر صوبے کے کسی بھی ضلع میں قیمتوں کا نہ تعین درست انداز میں کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر عمل درآمد کے لئے کوئی طریقہ کار موجود ہے۔اس قسم کی صورتحال میں عوام کے پاس احتجاج کے سوا کچھ نہیں بچتا حالات نے تو گھریلو خواتین کوبھی سڑکوں پرلاکھڑا کر دیا گیا ہے جنہوں نے جگہ جگہ مظاہرے کئے مگر شنوائی ہنوز نہیں ہو سکی کہ شاید ان پر ہی ترس کھا کر انتظامی افسران بازاروںکا دورہ کرنے کی ہمت کریں صورتحال میں بہتری کے لئے جلد اقدامات نہ کئے گئے تو بعید نہیں کہ عوام صوبہ بھر میں احتجاج پر مجبور ہوں اور مظاہرے شروع ہوجائیںصورتحال کا نگران حکومت اور اضلاع کی انتظامیہ کو ادراک ہونا چاہئے اورعوامی مسائل کے ممکنہ حل اور اقدامات پر فوری توجہ دی جائے۔اس وقت نگران حکومت کی آمد پر ایک خلا کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جس کا ممکنہ طور پر ذخیرہ اندوز اور منافع خور فائدہ اٹھا رہے ہیں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کے حکام بھی اس طرف متوجہ نہیںآٹا کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر راکٹ کی رفتار سے اوپر جارہی ہیں خیبرپختونخوامیں آٹا قلت کی ایک بڑی وجہ افغانستان سمگلنگ ہے اس منظم سمگلنگ پر مستقبل طور پر قابو پانا ضروری ہے ۔عوام کو برائے نام ریلیف کے لئے رعایتی نرخوں پرآٹے کی فراہمی کی صورت سے ہر کوئی واقف ہے رعایتی نرخوں پر آٹے کی فراہمی کا پہلا تجربہ ٹرکوں کے ذریعے صارفین کو مختلف مقامات پر پہنچا کر فروخت کرنے کا کیا گیا مگر اس میں بھی بدنظمی کے باعث ناکامی ہوئی شکایات میں اضافے کے بعد جودوسرا طریقہ اختیار کیا گیا یہ اس سے بھی ناکام تجربہ ثابت ہوا جس کی سب سے بڑی وجہ ملی بھگت اور اقرباء پروری ہے ٹرکوں کے ذریعے آٹے کی فراہمی میں شکایات بدنظمی اور ہڑبونگ کی تھی بجائے اس کے کہ اس پر قابو پایا جاتا مافیا کو نواز نے کے لئے یہ سلسلہ سرے سے ختم کر دیاگیا جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔حالات اس طرح رہے نگران حکومت نے سخت اقدامات نہ اٹھائے تو حالات خدانخواستہ مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی