مشرقیات

جو چاہے اسپیکر کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ہم کوئی قانونی عقاب تو ہیں نہیں کہ اپنے قومی اسمبلی کے مہاراجہ کے کپتان کے کھلاڑیوں کے ساتھ حسن سلوک پر آئین کے تناظر میں روشنی کا گولا داغیں۔البتہ اس فیصلے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ کپتان نے اپنے ہاتھوں سے وہی شاخ کاٹ لی ہے جس پر وہ محفوظ بیٹھے تھے اب تب میں اگر انہیں قانونی حصار میںلے لیا گیا تو ہمیں قطعی حیرت نہیں ہوگی ادھر پس دیوار سرگوشیاں ہو نے لگی ہیں کہ کپتان کو اشتہاری قرار دے کر عندالطلب کیا جائے۔اپنی مرضی سے تو وہ حاضر ہونے کا انکار ہی کر رہے ہیں۔ویسے کوئی پوچھے کپتان سے اب کہ دو اسمبلیاں تحلیل اور قومی اسمبلی سے ان کے سینکڑہ سے زائد ارکان کے استعفے قبول ہونے کے بعد کب ہوں گے انتخابات؟دوچار دن ہوئے ہمیں مولانا صاحب بتا گئے تھے کہ کپتان کو اب بھی انتخابات نہیں ملیں گے ،مولانا کے فرمان کا مطلب تھا بروقت بھی چھوڑیں ابھی دور بہت دور کی بات ہے جب انتخابات ہوں گے اور نتیجہ نکلے گا۔اب مولانا کی اس بات کو آئین کے تناظر میں قانونی عقاب ہی دیکھ پر کھ لیں گے ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ جتنا مولانا صاحب جانتے ہیں آج کا اتنا علم کپتان کو بھی نہیں ہے۔ادھر دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد مرکز میں بیٹھے شاباش میاں بھی اب اسپیڈ دکھانے کی تیاریاں کر رہے ہیں انہیں اب صرف اسلام آباد کا وزیراعظم ہونے کا طعنہ نہیں دیا جائے گا جو دیں گے بھی وہ اب تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔نگرانوں نے بھی اپنی شیروانیاں سلواتے ہوئے درزیوں کو تاکید کی تھی پکا کام کرنا ہے پوری سردی اور اس کے بعد کی بھی سردی میں یہ شیروانی کام آئے گی۔اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ حکومت لمبی چلے گی اور نگران اب اس حکومت کا باقاعدہ حصہ ہوں گے عقل کے اندھوں کو نظر نہیں آرہا کہ دونوں صوبوں کے کسی ایک گورنر نے بھی ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اب کون سی تاریخ کو انتخابات ہوں گے۔ادھر کپتان اب ساری امیدیں عدالت سے باندھ چکے ہیں اور خبرداروںکا اعتبار کیا جائے تویہاں سے بھی شاید ہی انہیں انتخابات ہاتھ آئیں کہنے والوں کے بقول کپتان کی بجائے سرکارکی ہی یہاں سنی جائے گی اگر سرکار نے بھی بدلے میں’سماعت ‘کرلی۔اس سماعت بارے سن گن ملی ہے کہ اٹارنی جنرل لگانے کے لیے سرکار کو وختہ پڑا ہوا ہے اور اس بارے میں گزشتہ دنوں ایک منصف نے بھی ریمارکس اچھال کر سب کے کان کھڑے کئے ہیں۔حرف آخر یہ کہ کپتان اب نہ تین میں رہے ہیں نہ تیرہ میں ایسے میں عوامی مقبولیت کو گھر بیٹھے اجوائے کریں سڑکوں پر بھی اس کی اجازت نہیں ملنی۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''