نادیدہ ” قوتوں”سے بچ کے

صدر مملکت کی باتیں اور خواہشات درست ہیں سیاسی مفاہمت جمہوری عمل کا حصہ ہیں افسوس کہ صدر مملکت نے یہ باتیں اس وقت نہیں کہیں جب عمران خان وزیراعظم تھے اور وہ اپوزیشن سے بات کرنے کو اپنے نظریہ کی توہین قرار دیا کرتے تھے۔ بحیثیت وزیراعظم انہوں نے نہ صرف اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا بلکہ اس انکار کی جو توجیہات پیش کیں ان سے سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہوئے۔ انتخابات یقینا وقت پر ہونے چاہئیں یہی آئینی تقاضا ہے مگر کیا صدر مملکت اس امر سے لاعلم ہیں کہ2018کے انتخابات کے بعد یہ طے پایا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے یہ فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں کیا گیا تھا مشترکہ مفادات کونسل کے متفقہ فیصلے سے روگردانی کے نتائج کیا ہوں گے یا یہ کہ کیا کونسل کے فیصلوں کی کوئی آئینی حیثیت نہیں؟ یہ امر بھی کسی نے مخفی نہیں کہ ماضی میں سندھ اور بلوچستان پچھلی مردم شماری پر اپنے تحفظات کے باعث نئی مردم شماری کا مطالبہ کررہے تھے۔ وفاق دونوں صوبوں کی شکایات کو دور کرنے میں ناکام رہا۔ اب اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے برعکس پھر پرانی مردم شماری پر ہوئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر عام انتخابات ہوتے ہیں تو نیا آیئنی تنازع جنم لے سکتا ہے۔ اس ضمن میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ صدر مملکت کسی ایک سیاسی جماعتوں کی وفاداری کی سطح سے اوپر اٹھ کر اپنے منصب کے تقاضے نبھائیں اور قومی اتفاق رائے کے لئے کردار ادا کریں۔ ان کا یہ شکوہ کہ حکومت نے مذاکرات کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیا بجا تو ہے لیکن انہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے بطور صدر مملکت کردار ادا کرنے پر توجہ دی یا اپریل2022 سے قبل کی طرح خود کو تحریک انصاف کا صدر مملکت ہی سمجھا اور اسی طور کردار نبھایا ؟ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ پچھلے برس وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں انہوں نے ایوان صدر کو پی ٹی آئی کا رابطہ دفتر بنائے رکھا۔ اس وقت کی حکومت اور خود وزیراعظم کے بعض غیرقانونی فیصلوں پر بطور صدر تصدیقی مہر ثبت کی جبکہ ان کا منصب اس امر کا متقاضی تھا کہ وہ ایک ایسے قومی بزرگ کا کردار ادا کرتے جس پر مختلف الخیال فریقین اگر مگر کے بغیر اعتماد کرتے ہوئے انہیں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے کہتے۔ گو صدر مملکت یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے کردار اور منصب کے حوالے سے منفی تاثر سیاسی مخالفین کا پیدا کردہ ہے لیکن اس منفی تاثر کے خاتمے کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ اس پر دو آرا نہیں کہ سیاسی نظام کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے اور استحکام کے لئے انتخابی عمل کا مقررہ مدت میں انعقاد بہت ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس سے فرار کے بہانے ڈھونڈنے کی بجائے اپنی سیاسی اور جمہوری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہیے۔ نئی مردم شماری یکم مارچ سے شروع ہوگی30اپریل تک اگر اس کے حتمی نتائج آجاتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے لئے6ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتخابات اکتوبر کے بعد نومبر یا دسمبر میں منعقد ہوں گے۔ گو آئین میں اس کی کتنی گنجائش ہے اور یہ کہ کیا تحلیل شدہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ اگر قومی اسمبلی کی پی ٹی آئی کے استعفوں سے خالی ہونے والی جنرل نشستوں پر مرحلہ وار ضمنی
انتخابات یا ایک ہی دن ان کا انعقاد ہوتا ہے تو یہ انتخابات مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری کے حوالے سے فیصلے کی روشنی میں چیلنج تو نہیں ہوں گے؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ وفاقی حکومت کے اتحادیوں میں آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری پر کرانے کے لئے صلاح مشورے جاری ہیں۔ ایک طرح سے یہ صلاح مشورے مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے کی روح کے مطابق ہیں کہ2023 کے عام انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں گے۔ اس فیصلے کی بنیاد پر اگر فوری انتخابات کی متقاضی سابق حکمران جماعت اور اس کی قیادت سے یہ پوچھا جائے کہ اگر آج بھی پی پی آئی برسراقتدار ہوتی تو کیا وہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عمل کرتی یا فیڈریشن کی اکائیوں(صوبوں) اور سیاسی جماعتوں سے بات چیت اور پارلیمان کے ذریعے حل تلاش کرتی؟ جہاں تک مائنس عمران خان کے حوالے سے صدر مملکت کے خیالات کا تعلق ہے تو ان پر دو آرا نہیں۔ کسی سیاسی جماعت یا رہنما کو مائنس کرنے کے ماضی میں بھی جتنے تجربے ہوئے وہ ناکام رہے۔ ماضی قریب میں میاں نوازشریف کو مائنس کرنے کے لئے جو طریقہ اپنایا گیا وہ بظاہر تو کامیاب دکھائی دیا مگر حقیقت میں اس طریقہ کار پر عمل کے نتائج نے نظام کی بنیادیں ہلادیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی عمل کا تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا سیاسی جماعتوں کی قسمت کے فیصلے کا حق رائے دہندگان کو دیتا ہے مصنوعی طریقے سے کسی شخصیت کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے یا جماعت کو ماضی کا قصہ بنادینے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی۔ عمران خان اور ان کی سیاست سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے وہ
ایک سیاسی حقیقت ہیں۔ ان کے مخالفین کو چاہیے کہ مائنس عمران کے فارمولے کا تجربہ کرنے کی بجائے سیاسی میدان میں مقابلہ کریں۔ رہا سوال ان کی گرفتاری پر عوامی ردعمل کی اس بات کا جو صدر مملکت نے کہی تو اس پر یہ پوچھا جانا ضروری ہے کہ عمران خان کے خلاف جو مقدمات ہیں کیا وہ اندھے کنویں میں پھینک دینے سے مسئلہ حل ہوجائے گا یا ان مقدمات کا عدالتی عمل کے ذریعے فیصلہ ضروری ہے۔ ہماری دانست میں مقدمات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ عدالتوں کو کرنے دیا جائے تو بہتر رہے گا۔ البتہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص صرف اسی فیصلے کو درست سمجھتا ہے جواس کے حق میں ہو۔ ریلیف ملا تو انصاف کا بولا بالاہوا ریلیف نہ ملنے پر خفیہ ہاتھوں کی وارداتوں کی کہانیوں سے لوگوں کو بہلایا جاتا ہے۔ بہرطور پہ امر دوچند ہے کہ سیاسی استحکام کے بنیادی تقاضوں کو نظرانداز کرنے سے مسائل سنگین ہوں گے۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ سیاسی قائدین شخصی انا اور مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اجتماعی قومی مفادات، سیاسی استحکام اور جمہوریت کے تسلسل کی ضرورتوں کو بہرطور پیش نظر رکھیں۔ باردیگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو وسیع تر سیاسی مفاہمت اور جمہوریت کے استحکام کے لئے صدر مملکت کے توسط سے پی ٹی ائی سے مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں۔ یہ بجا کہ عمران خان کا طرز سیاست درست نہیں مگر یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ کسی ایک شخص کے رویہ کی بنیاد پر مذاکرات کے دروازے بند کر کے نہیں بیٹھ رہا جاتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سیاسی قائدین سیاسی و معاشی استحکام اور جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کے تقاضوں کو بہرصورت مدنظررکھیں گے تاکہ نادیدہ قوتیں سیاسی عمل اور نظام کو بند گلی میں لے جانے کی سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  معزز منصفوں !تصحیح لازم ہے