ڈریم پارٹی

پاکستان اس وقت سنگین بحران کا شکار ہے اور اسے اس بحران سے نکالنے کے لیے ”ڈریم پارٹی” یعنی عام آدمی کی سوچ کے عین مطابق سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی جماعت جو اصلاحات متعارف کرانے کا نصب العین اور پوری صلاحیت رکھتی ہو۔ جس میں ”اسٹیٹس کو” کی قوتوں کو للکارنے کی جرات ہو۔ ایک ایسی جماعت جو نہ نظریاتی بوجھ سے لدی ہو اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی تابع ہو بلکہ صرف عوام کی حمایت اس کی طاقت کا ذریعہ ہو۔ اگرچہ ایسی سیاسی جماعت کا تصور جاگتے میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ بہرحال، یہ ایک فطری ذہنی مشق ہے۔ کیونکہ ذہن انتہائی بحران کی صورت حال میں فرارکی راہیں تلاش کرتا ہے۔ دماغ یہ سوچنا کرنا شروع کر دیتا ہے کہ حالات جلد ہی بدل جائیں گے، اس طرح وہ دکھی روحوں کو عارضی سکون مہیا کرتا ہے۔
پھر نئی سیاسی جماعت کی خواہش کرنے میں حرج بھی کیا ہے؟ ملک میں یہ وسیع تر اتفاق رائے تو موجود ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں ملک کو ناکام ریاست بنا چکی ہیں۔ ان جماعتوں کی سیاست کا محور فقط اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا حصول ہے اور اس عمل میں وہ سیاسی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ یہی بات ” ری امیجنگ پاکستان” یعنی پاکستان کے تشخص کی تشکیل نوکے عنوان سے شروع ہونے والی نئی مہم کے رہنماؤں نے بھی کہی ہے۔ یہ مہم حال ہی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مبینہ منحرف ارکان پر مشتمل گروپ نے شروع کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ گروپ ڈریم پارٹی کے قیام کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس کے ارکان نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ بظاہر ان لوگوں کی توجہ نئی جماعت بنانے کی بجائے آئندہ کے ایسے لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر مرکوز دکھائی دیتی ہے جو پاکستان کو موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اسٹریٹجک رہنمائی فراہم کر سکے۔ ان سیاستدانوں نے مہم کا آغاز کوئٹہ سے کیا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، معاشی اور سیاسی بحرانوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے میں سیاسی جماعتوں میں اہلیت کے فقدان جیسے مسائل کو مؤثرانداز میں اجاگر کیا۔
بلاشبہ پاکستان کو موجودہ معاشی و سیاسی بحرانوں سے نجات کے لیے بنیادی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن بڑا چیلنج طاقت یا اختیارات کا وہ ڈھانچہ ہے، جو نظام پر مکمل نظر ثانی نہیں چاہتا بلکہ وہ معمولی نتائج کی حامل تبدیلیوں کو اہمیت دیتا ہے، اس طرح وہ ” اسٹیٹس کو” کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ طاقتور اشرافیہ ، جو نظام کو چلاتی ہے اور جو اسٹیبلشمنٹ، سیاسی قیادت، بیوروکریسی اور صنعتی اور زرعی گروہوں کے درمیان گٹھ جوڑ پر سمجھوتہ کرتی ہے داخلی سطح پر اصلاحات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے بیرونی امدادکی طرف دیکھتی ہے۔ اس اشرافیہ نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ لوگوں نے امید کھونی شروع کر دی ہے۔ یوں سسٹم (نظام) بڑھتا ہوا عدم اعتماد بالآخر جلد یا بدیر اس کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
یقیناً ڈھانچہ جاتی یا ساختی تبدیلیاں متعارف کرانے کے لیے یہی صحیح موقع ہے، کیونکہ سوچ کا عمل ابھی بھی فعال ہے اور مختلف حلقوں میں لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، ان میں ” ری امیجنگ پاکستان” مہم کے رہنما بھی شامل ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر اچھے خیالات سازگار فضا کی عدم موجودگی میں اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایک بار اس پر اتفاق رائے ہو جائے کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ڈیلیورکرنے یا کارکردگی دکھانے کا اہل نہیں رہا تو تمام سیاسی جماعتوں کو اس میں اصلاحات کے لیے کوشش کرنا پڑیںگی اور اس سے پہلے انہیں اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ فی الحال، یہ جماعتیں خواہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، کسی وژن یا اصلاحات لانے کی صلاحیت کے بغیر ایک جیسے طرزعمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ چنانچہ اس تناظر میں بھی ایک ایسی نئی سیاسی جماعت کے لیے گنجائش ضرور پیدا ہوتی ہے، جو اپنی طاقت عوام سے حاصل کر ے۔
اتفاق سے 160 سیاسی جماعتیں پہلے ہی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے منشور میں ملک کو درپیش تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نظریاتی اور مذہبی تقسیم کے علاوہ بہت سی جماعتیں انسانی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ بھی کرتی ہیں۔ رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے 30 کے نام عوام ، عوامی یا عام لوگ ہیں، ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے درجن بھر دھڑے شامل نہیں ہیں۔ 21 مسلم لیگوں اور 30 سے زائد مذہبی جماعتوں کے علاوہ دو منفرد جماعتیں بھی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں، جو پاکستان تحریک اجتہاد اور تحریک درویشاں پاکستان ہیں۔
بظاہر یہ جماعتیں بعض خوابوں کے تعاقب میں وجود میں آئی ہیں۔ اگرچہ ان کے قیام میں کار فرما حقیقی مقاصد ابھی تک واضح نہیں ہیں، اگر وہ عملی طور پر فعال نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کچھ ایسے مثالیت پسندوں (آئیڈیلسٹس) نے قائم کی ہیں جن کے پاس عوام کو اپنے منشور کی طرف مائل کرنے کے لیے وسائل یا طاقت نہیں ہے۔ حالانکہ وہ ملک کے پیچیدہ سیاسی منظر نامے میں اپنے کردار کے خواہشمند ہیں۔
پاکستان کی ڈریم پارٹی اگر وجود میں آئے تو اس کا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے اور وہ ہر شعبے میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر توجہ دے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہ پارٹی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو۔ بلکہ اس کا اصلاحاتی ایجنڈا پالیسی سازی کے عمل کے ذریعے آگے بڑھنا چاہیے جس پر بحث ہوتی ہے اور پارلیمنٹ سے منظوری لی جاتی ہے۔ یعنی پارٹی کو پارلیمنٹ کی بالادستی پر پختہ یقین ہو۔ یقیناً ایسی سیاسی جماعت میں یہ بھی ہمت ہو گی کہ وہ تمام طاقتور اداروں کو قانون کے سامنے جوابدہ بنائے۔
اگرچہ ڈریم پارٹی میں وہ تمام مثبت خصوصیات ہونی چاہئیں جو عام آدمی سوچتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی پہل کون کر سکتا ہے؟ ایک ممکنہ جواب تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ایسے اختلاف رائے رکھنے والے لوگ ہیں۔ جو پارٹیوں سے نکالے گئے ہیں یا نکالے جانے کی راہ پر گامزن ہیں یا اپنی قیادت سے ناخوش ہیں اور وہ پارٹی اور ملک کے معاملات کو چلانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ یقیناً ہر مرکزی دھارے کی پارٹی میں اختلاف رائے رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ اگر وہ ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں اور ان علاقائی سیاسی جماعتوں کو بھی ضم کر لیں، جو چند حلقے جیتنے کی طاقت رکھتی ہیں، تو وہ ایسی پارٹی کی طرف بڑھ سکتی ہیں جو ڈریم پارٹی کہلا سکتی ہے۔
اگرچہ بہت سے لوگ یہ تنقید بھی کر تے ہیں کہ اختلاف رائے رکھنے والوں میں شامل زیادہ تر لوگ نظام کا حصہ رہے ہیں اور وہ بغاوت کی ہمت نہیں رکھتے۔ پھر ایسے لوگ بھی بہت کم ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا مقابلہ کر سکیں۔ بہرکیف، خواب (ڈریم پارٹی) ابھی تک خواب ہی ہے لیکن یہ افراتفری یا بحران میں مضطرب روحوں کو راحت ضرور فراہم کر تا ہے۔
(بشکریہ ، ڈان ، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار