مشرقیات

بہت سے کاغذات بادشاہ سلامت کی خدمت میں بھیجے گئے ان میں سے ایک کاغذ پر حکم ہوا کہ پانچ ہزار روپے دے دیئے جائیں اور یہی حکم اس درخواست پر لکھ دیا گیا جو پیش ہوئی تھی یہ فرمان شاہی تھا یہ کاغذ اور کاغذوں کے ساتھ جب وزیر پیشی کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک کاشت کار کی عرضی پر یہ حکم صادر ہوا ہے عرضی اس نے پڑھی تومعلوم ہوا کہ کسی غریب کسان نے لکھوائی ہے ۔ مضمون یہ تھا کہ ۔۔ اللہ نے پیٹ بھر کے اولاد دی ہے وہ بھی لڑکیاں بڑی بچیوں کی سب کی تو کسی نہ کسی طرح شادی کر چکا ہوں اب ایک بچی اورباقی رہ گئی ہے جتنی اس کی عمر بڑھتی ہے اس سے کہیں زیادہ میری پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں بوڑھا ہو گیا ہوں ہاتھ پائوں ساتھ نہیں دیتے قرض کے بوجھ تلے پہلے ہی سے دبا ہوا ہوں کسی طرف سے کوئی امید نہیں تھوڑی سی زمین رہ گئی ہے اور دو ایک مویشی اگر ان کو بیچ دوں اور لڑکی کے ہاتھ پیلے کر دوں تو سود در سود کی ایسی مار پڑے گی کہ سسک سسک کے دم توڑ دونگا پھر تو نہ سر چھپانے کا آسرا رہے گا بیوہ کی گزربسر کا سہارا اس لئے ہر طرح سے مجبور ہو کر یہ عرضی آپ کو بھیج رہا ہوں میں ایک غریب آپ بادشاہ آپ کی نظر کرم پڑ گئی تو زندگی کے آخری دن آپ کو دعا دیتے گزار دوں گا۔
یہ خط اس کسان نے ایک ایسے بادشاہ کولکھا تھا جسے سب لکھ لٹ کہتے تھے پانچ پشتوں سے خزانہ زر و جواہر سے معمور تھا بڑی سلطنت اور بڑی سرکار تھی ہزاروں کا خرچ روز کا تھا اس خرچ میں بڑا حصہ غریبوں کی امداد کا ہوتا کسی نے مانگا توکبھی انکار نہ ہوا۔مورخین اور محدثین لکھتے ہیں اللہ کے رسول ایسے سخی داتا تھے کہ پاس کچھ ہوتا یا نہ ہوتا اللہ کی راہ میںدیئے جاتے تھے پاس نہ ہوتا توکسی سے قرض لے لیتے لیکن مانگنے والے کی ضرورت پوری کردیتے ۔ یہ سب مانتے ہیں کہ آپۖ نے کبھی کسی مانگنے والے کو نہیں فرمایا ۔۔ اللہ نے جن کو دیا ہے انہیں حکم ہے کہ اللہ کی دین کو جوڑ جوڑ کے نہ رکھو اس میں سے کچھ حق غریبوں کا بھی نکالو ۔ جو مستحق ہوں ان کی مدد کرو خصوصاً اپنے ایسے عزیزوں سے سلوک کرو جو پریشان حال ہوں دوسروں کا اس طرح خیال رکھنے والوں سے اللہ اور اس کے رسولۖ خوش ہوتے ہیں۔عہد محبوب یہ نظام دکن میر محبوب علی خان کی بڑی دلچسپ سوانح حیات ہے ۔اس کے مصنفین بیان کرتے ہیں کہ کسان نے لکھا تھا ۔ پیارے سرکار! پانچ سو روپے سے میری مدد فرما دیجئے بچی کے ہاتھ پیلے کر دوں گا بڑے لوگوں تک کہاں ایسی درخواستیں پہنچتی ہیں مگر محبوب علی خان کا حکم تھا ایسی ہر درخواست ان تک ضرور پہنچے گی خبردار جوکسی نے بیچ میں گڑ بڑ کی اگر کوئی ایسا کرتا اورا نہیں معلوم ہوجاتا تو سخت سزا دیتے ۔عوام کے دکھ درد میں شریک ہونا فرمان روا کا فرض ہے محبوب علی خان اس فرض کو بڑی تندہی سے پورا کرتے تھے جب کسان کی عرضی ان کی نظر سے گزری تو فوراً اس پر فرمان ہوا کہ پانچ ہزار روپے دے دیئے جائیں وزیر نے درخواست پڑھی تو معلوم ہوا کہ پانچ سو مانگے گئے تھے وزیر نے دوسرے دن کاغذات میں پھراس عرضی کو شامل کردیا اس پر ایک طرف مختصر عرضداشت لکھی کہ پانچ سو مانگے گئے تھے پنچ ہزار کا حکم کہیں غلط فہمی سے تو عنایت نہیں ہوا عرضی واپس آئی تو وزیر نے پڑھا کہ لکھا تھا فوراً پندرہ ہزار بھیج دو وزیر کو ہمت نہ ہوئی کہ پھر کچھ لکھتا اسی وقت تعمیل کر دی۔اللہ کے رسول فرماتے ہیں کہ مانگنے والے کو اس کی امید سے زیادہ دو تو جوخوشی اسے ہوتی ہے اس کا بدل اللہ کی رحمت ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا