مشرقیات

امام بخاری کی خدمت میں تحفے پیش ہوئے ‘ دوستوں’ عقیدتمندوں اور نیاز کیشوں کی طرف سے یہ تحفے آئے تھے ۔ ایک سے ایک اچھا ‘ ایک سے ایک اعلیٰ تھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب امام بخاری کے پاس کچھ نہ تھا فقرو فاقے سے دن گزرتے تھے ویسے امام بخاری بڑے دولت مندگھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد نے ان کے لئے بڑی دولت چھوڑی تھی جب اس دولت کے برتنے کے دن آئے تو امام بخاری نے علم حاصل کرنے میں ساری دولت خرچ کردی دور دور کا سفر کرتے اور بڑے بڑے علماء سے حدیثوں کا درس لیتے تھے دل کھول کر اللہ کے بندوں کی مدد کرتے نتیجہ یہ کہ بہت جلد ساری جمع شدہ پونجی خرچ کربیٹھے یہ دولت تو انہوں نے لٹا دی لیکن دولت علم سے اپنے دل و دماغ کو بھرلیا یہ وہ لازوال سرمایہ تھا کہ اس کے لٹنے یا گم ہوجانے کا کوئی امکان نہیں امام بخاری بہت بڑے محدث او مفسر تھے ان کی کتاب صحیح بخاری حدیثوں کی تمام کتابوں سے مستند اور معتبر سمجھی جاتی ہو یہ کتاب انہوں نے بڑی احتیاط سے لکھی ہے کوئی غلط بات آنحضرت سے منسوب کرناگناہ ہی گناہ ہے امام بخاری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرتے دو رکعت نفل پڑھتے بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے پھر لکھنا شروع کرتے ۔اس شان سے دنیا میں آج تک کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی ۔
امام بخاری کے پاس جو تحفے آئے انہیں رکھ کر وہ کیا کرتے پیٹ کو روٹی کی ضرورت تھی اس لئے خیال ہوا کہ انہیں فروخت کردینا چاہئے ان کا یہ خیال ظاہر ہوا تو شہر کے ایک تاجر نے آکر چیزوں کو دیکھا پانچ ہزار درہم اس کے دام لگائے امام بخاری کو رقم کی بڑی ضرورت تھی اس لئے جی چاہا کہ فوراً سودا کر دیں لیکن پھر رکے رہے کچھ سوچ کوبولے ۔۔ میں یہ بات کل طے کروں گا کہ مجھے یہ تحفے بیچنے ہیں بھی یا نہیں وہ تاجر دوبارہ آنے کاوعدہ کرکے چلاگیا سودا طے نہیں ہوا صرف ابتدائی بات چیت ہوئی۔تاجر کے جانے کے بعد امام بخاری اپنی ضرورتوں کا اندازہ لگاتے رہے پھر سوچ سوچ کرا نہوں نے اپنے دل میں طے کر لیا کہ وہ یہ تحفے اس تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیں گے یہ ایک تصفیہ تھا جو انہوں نے دل ہی دل میں کیا تھا کسی کو اس تصفیہ کا حال معلوم نہ تھا دوسرے دن اس سے پہلے کہ وہ تاجر آتا ایک اور تاجر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ اس نے کہا ۔ میں آپ کے تحفے دیکھنے آیا ہوں ‘ ان کی قیمت لگائوں گا اور خریدوں گا۔امام صاحب اس کی بات سنی ان سنی کر دینا چاہتے تھے لیکن آپ کے دوستوں نے کہا ۔ کیا حرج ہے؟ بتا دیجئے آپ کو بھی ان کی مالیت کا اندازہ ہو جائے گا۔اس نے ایک ایک چیز کو جانچ پرکھ کر دام لگائے سب کے دام جوڑے اور ان لوگوں سے جنہوں نے یہ تحفے دکھائے تھے کہا کہ میں ان سب کے دس ہزار درہم سے زیادہ نہیں دے سکتا یہ بہت واجبی قیمت ہے ۔لوگوں نے کہا ۔ حضرت اچھا ہوا کہ ہم نے نئے تاجر کو مال دکھایا۔ اس نے دس ہزار درہم لگائے ہیں ۔ جواب ملا جو دام بھی اس نے لگائے ہوں چیزیں پہلے تاجر ہی کو ملیں گی! پوچھا گیا۔۔ کیوں؟ فرمایا اس لئے کہ رات میں نے اپنے دل میں طے کر لیا تھا کہ میں اسی کے ہاتھ انہیں فروخت کر دوںگا۔اگرچہ سودا پہلے تاجر سے نہیں ہوا تھا لیکن وہ اپنے دل میں نیت کر چکے تھے کہ تحفے اسی کے ہاتھ بیچیں گے۔نیت عمل ہی کی ایک صورت ہے اس لئے نیت کی بڑی اہمیت ہے۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟