یہاں کسی ہونی کا کوئی ذمہ دار نہیں

ایک ٹی وی چینل پرکسی بڑے شہرکے اتوار بازار میں اس چینل کا نمائندہ لوگوں سے مہنگائی اور وہاں موجود اشیاء کے بارے تاثرات لے رہا تھا ، کوئی حکومت سے ناراض اور حکمرانوں کو نا اہل کہہ رہا تھا تو کوئی اپنی حالت زار کا رونا رو رہا تھا ۔ ایک نوجوان نے کہا کہ مجھے مہنگائی کی وجوہات اور معیشت کے حساب کتاب کا کوئی علم نہیں لیکن ہم یہاں مقامی انتظامیہ کی غیر ذمہ داری اور بد انتظامی کا شکار ہیں ۔ حکومت کے مقررہ نرخوں کے باوجود یہ تما م دکاندار اپنی من مانی کر رہے ہیں ۔ کئی بار انتظامی افسران کو شکایت کی مگر کوئی بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں کہ وہ یہاں آکر ان دکانداروں کو مقرر شدہ نرخ سے مہنگے داموں عام روزمرہ کے استعمال کی اشیاء فروخت کرنے پر روک یا پکڑ سکے ۔ نوجوان کی یہ باتیں سن کرسوچنے لگا کہ ہمارے ہاںاتوار بازار سے لے کر قومی سطح تک پیش آنے والی کسی بھی نوعیت کی زیادتی، لا قانونیت اور سنگین واقعات کے نتیجہ میں کبھی کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا ۔قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہم مسلسل حادثوں کی زد میں ہیں ، روزعدل و انصاف کے تقاضوں کی تضحیک ہو تی ہے ، ابتری پھیلی ہوئی ہے اور ہر سطح پر پائی جانے والی خرابی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ایسے ہر وقوعہ کو روا سمجھا جانے لگا ہے ۔ یہ قوم تو اب سوال کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی کہ ایسا کیوں ہوا بلکہ بڑی خود اعتمادی اور خود غرضی سے کبھی کسی واقعہ ، حالات اور یہاں تک کہ گواہی کی براہ راست یا بالواسطہ ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور پھر بڑی مہارت و ذہانت سے اس کا ملبہ مُلک دشمن عناصر اور دوسروں پر ڈال دیتے ہیں ۔سب سے پہلے بابائے قوم کی موت ہمارے سامنے ہے ، ایک مرض لاحق ہو ا مگر کراچی میں علاج کرنے کی بجائے اُنہیں زیارت لے جایا گیا۔ یہ نہیں معلوم کہ اُنہوں نے کب اس خواہش کا اظہار کیا ۔ واپسی ہوئی تو گاڑی خراب ہوجاتی ہے اور ڈاکٹرز بھی ہمراہ نہ تھے ۔ وہ کون لوگ تھے جنہیں بابائے قوم زندگی ہی میں اس تساہل کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے ۔ آج تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ، کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا اور کوئی شہادت سامنے نہیں آتی ۔ اس تناظر میں مُلکی تاریخ دیکھیں تو ہر شعبہ میں چاہے قومی سیاست ہو ، ادارے ہوں ، ترقیاتی منصوبے ہوں ، تجارت ہو یا افراد ہوں ، ایسے ایسے غیر معمولی واقعات پیش آئے اور غیر قانونی کام ہوئے ہیں کہ اس ضمن میں کسی کی ذمہ داری کا تعین نہیں ہو سکا بلکہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ۔ لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کو عوامی اجتماع میں جان سے مار دیا گیا ۔ پھر گواہان نہ رہے ، نشانات مٹا دئیے گئے اور ستم یہ کہ ایک اصلی یا نقلی قاتل ہاتھ آیا تو اُسے بھی آناًً فاناً گولی سے اُڑا دیا گیا اور تفتیشی دستاویزات ضائع کر دئیے ۔ نہیں معلوم کہ کون سے عوامل ذمہ دار تھے ۔ مُلک دو لخت ہوا ، کمیشن نے تحقیق کی لیکن نہ ذمہ دار سامنے آیا اور نہ اُسے سزا ہوئی۔
مذہبی منافرت ، علاقائی تعصب اور لسانی جھگڑے کی سازش ہوئی، بے شمار جانیں چلی گئیںاور ایک ہی شہر میں رہنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ کون ذمہ دار تھے ، کس نے سازش کی اور اب بھی جو کچھ ہو رہا ہے تو وہ کون ہے ؟ کوئی تیار ہی نہیں کہ ذمہ دار کو سامنے لایا جائے۔
دہشت گردی نے ایک مدت سے پورے مُلک کو لہو لہان کر رکھا ہے ۔ دہشت گرد بھی مارے جاتے ہیں مگر ذمہ دار سامنے نہیں آتے ۔ سرکاری دفاتر میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ ، اقربا پروری ، بے قاعدگی اور کام چوری عام ہو چکی ہے ۔ آڈٹ پیرے ، عوامی شکایات اور انکوائری کی رپورٹس کے باوجود کوئی بھی ذمہ دار نامزد نہیں ہوتا اور اگر کہیں ذمہ داری کا تعین ہو بھی جائے تو کوئی سزا وار نہیں ہوتا ۔ ریلوے کے کئی حادثات ہوئے ، توانائی کا بحران ، یونیورسٹی میں مالی بحران ، چوری، ڈکیتی ، زمینوں پہ قبضے ، ٹیکس کی چوری اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی بے روزگاری کے کیا اسباب ہیں اور کون کون ذمہ دار ہیں ، یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا ۔ کئی دہائیوں سے کراچی کا مسّلہ اُلجھا ہوا ہے ، یہاں شر پسندوں اور قانون نافذ کرنے والوں نے اپنے اپنے اعتبار سے بے گناہ شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ لوگوں کے خلاف مرتب کیے جانے والے الزامات کسی عدالتی کاروائی اور فیصلے کے بغیر جرم کا ثبوت تصور ہوتے ہیں اور ایسے میں کسی کا سر راہ مارے جانا اخلاقی اور قانونی طور پر جائز سمجھا جاتا ہے ۔ اب ان وارداتوں کا ذمہ دار کون ہے ، سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ نہیں معلوم کیونکہ حکام نے ابھی تک ذمہ داری کا تعین نہیں کیا۔ اس وقت مُلک میں افراتفری کے سوا کوئی نظام نہیں ۔آئی ایم ایف کی شرائط ، بجلی گیس کے بلوں میں اضافہ ،ڈیزل پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ، مہنگائی اور اب پھر قومی سلامتی اور انسانی جان کو خطرات لاحق مگر یہ نہیں معلوم کہ کسے ذمہ دار ٹھہرایئں ۔ کیا ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے ، یہ وہ سوال ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ اس ساری افرا تفری میں ہمارے معاشرے کا یہ عمومی مزاج بن چکا ہے کہ اپنے سوا دوسرے پر جو بھی آفت آئے اُسے جائز سمجھتے ہیں ، کوئی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ممکن ہے کسی فرد پر جو الزام لگایا جا رہا ہے ، وہ درست نہ ہو کیونکہ ہم اس اصول کے قائل نہیں کہ ملزم کو اُس وقت تک بے گناہ سمجھو جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ۔ ذمہ داری کا تعین بھی نہیں کرتے کہ غلط کاروں کو سزا دینے کی بجائے ایک بے گناہ شہری کے تکلیف میں مبتلا ہونے کو بہتر سمجھتے ہیں ۔ ہر فرد اور معاشرہ کو اپنی اپنی مجبوریوں اور مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس کا علاج یہ نہیں کہ زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈی جائے یا آسمان میں سیڑھی لگانے کی کوشش کی جائے ، علاج یہی ہے کہ حق کی بات کہی جائے اور اپنے عمل سے اُس کی ضرورت اور صداقت ثابت کی جائے ۔ علاج تو بہر حال موجود ہے مگر یہ کڑوا گھونٹ کون پئے گا ؟
1130

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے