”خوف کو عزت دو”

پی ڈی ایم کا سفر” ووٹ کو عزت دو” سے شروع ہوا اور اب اس سفر کا اختتام ”خوف کو عزت دو” کی عملی شکل پر ہو رہاہے ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ اس حکومت کی مدت پوری ہوتی جا رہی ہے اور اب یہ مستعار سانسوں پر دن گزار رہی ہے ۔حکومت نہ صرف یہ کہ ان مستعار سانسوں کا ہر لمحہ انجوائے کرنا چاہتی ہے بلکہ اس دورانیے کو مزید سال دوسال تک بڑھانا چاہتی ہے گویا کہ دوسال تک حکومت ووٹ کو ڈیپ فریزر کی نذر کرنا چاہتی ہے ۔دوسال کے بعد کیا ہوتا ہے کسے معلوم ؟ایک بار پہلے بھی پی این اے نامی اتحاد نے ذوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑانے کے لئے ”پہلے احتساب پھر انتخاب ” کا نعرہ بلند کیا تھا پھر نہ احتساب ہو ا نہ انتخاب مگر پھر پی این اے کی اکثر جماعتیں اسی ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر اور ان کی تصویر تلے سجائے گئے ایم آرڈی کے بحالی جمہوریت کے ٹرک پر بیٹھنے پر مجبور ہو گئی تھیں ۔قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمود کا خانوادہ ، قومی اتحاد کے مدارالمہام نواب زادہ نصراللہ خان بنفس نفیس ،خان عبدالولی خان ائرمارشل اصغر خان اور مولانا شاہ احمد نورانی سبھی مارشل لا نامنطور کے نعرے لگاتے بھٹو صاحب کے نام پر سجے ٹرک پر بیٹھے ہوئے دیکھے جاتے رہے ۔اس ماحول کو ہاتھوں سے دی گئی گانٹھ کو دانتوں سے کھولنا ہی کہا جا تا ہے ۔پہلے نظریہ ٔ ضرورت کے تحت جمہوریت کا بیڑہ غرق کیا جائے پھر مارشل لاء نامنظور کے نام پر اس بیڑے کو جمع کرکے پار لگانے کی سعی کی جائے ۔مارشل لاء جب بھی آتا ہے تو حالات کی خرابی کی پوری داستان بھی ساتھ لاتا ہے اور کم ازکم مدت میں اصلاح احوال کرنے اور حقیقی اور بنیادی جمہوریت کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کا دعویٰ بھی لبوں پر ہوتا ہے اور ٹینکو کریٹس کی صورت میں غیر سیاسی افلاطونوں کی ٹیم بھی ساتھ ہوتی ہے جو اقتصادیات قانون اور سیاسیات اور اسلامیات کے شعبوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔کبھی اس کا نظریہ اسلامائزیشن ہوتا تو کبھی ان لائٹن ،ماڈریشن ۔بیڑہ لنگر انداز ہوتا ہے اور عرشے پر یہ سب ماہرین اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔پاکستانی عوام ایک نئی صبح کے طلوع کا یقین کرتے ہیں جب کھیل ختم ہوتا ہے تو پاکستانی عوام کو یہ سب فریب نظر معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ بدستورحالات کے بھنور میں گھرے ہوتے ہیں اور آگے دکھوں بھرا ایک لمبا سفر انہیں درپیش ہوتا ہے ۔خد اجانے اب جو بیوروکریٹس پاکستان کی مسیحائی کے لئے شیروانیاں سلوائے بیٹھے ہیں کیا ان میں ڈاکٹر محبوب الحق سے بڑا ماہر اقتصادیات ،شریف الدین پیر زادہ سے بڑا ماہر قانون آغا
شاہی اور صاحبزادہ یعقوب علی خان سے بڑا ماہر خارجہ امورراجہ ظفرالحق اور مولانا ظفر احمد انصاری سے بڑا ماہر امور اسلامی اور میرعلی احمد تالپور سے زیادہ دبنگ اور رعب دار وزیر وفاع ہوگا؟۔یہ تو اس ٹینکوکریٹک حکومت کا منظر تھا جو پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرے کا نتیجہ تھی ۔جس کا آغاز ہم نے پانچویں جماعت میں ہوتے دیکھا اور چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر حضرت ضیاء الحق کا قوم سے پہلا خطاب ہم نے سکول کے گراونڈ میں شام کو ریڈیو پر سناپھر جب پی ٹی وی سے رات آٹھ بجے عشرت فاطمہ کی آواز میں جنرل ضیا الحق مرحوم کے جہاز کے حادثے کی خبر سنی تو ہم یونیورسٹی کالج میں گریجویشن کر رہے تھے۔احتساب نہ انتخاب بلکہ امن اور چین اورہر سال بڑھنے والی مہنگائی کالجوں میں منشیات کی تیزی سے پھیلی وبا،غرض یہ کہ جنرل ضیاء الحق اور ان کی بہترین اور باصلاحیت ٹیم پہلے سے کچھ زیادہ ہی خراب حال پاکستان چھوڑ کر جا رہے تھی ۔اب بھی پی ڈی ایم بیتے کل کا پاکستان قومی اتحاد ہے جس پر ایک فرد کا راستہ روکنے کی دُھن سوار ہے اور اس میں وہ اپنے مقبول نعرے ووٹ کو عزت دو کو بھی ترک کرنے پر تیار ہے۔اپنے سال بھر پہلے لگائے جانے والے نعروں اور مطالبات سے بھی دست بردار ہوہاہے ۔ایسے میں سینیٹرمشاہد حسین سید نے بجا کہا ہے کہ طاقت کا خلا جب بھی پیدا ہوتا ہے تو اسے پھر کوئی جنرل آئندہ محمد خان ہی پر کرتا ہے۔کیا عجب ہے کہ ماضی کے پی این اے کی طرح پی ڈی ایم کل پھر عمران خان کی تصویر تلے سجے ٹرک پر بیٹھ کر بحالی جمہوریت کا مطالبہ دہرا رہی ہو ۔اس دوران صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر آئین کے تحت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے انعقاد کی تیاری کرنے کو کہہ دیا ہے۔ صدر مملکت نے لکھا ہے کہ مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد آئین کا تقاضا ہے۔صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 224کے تحت دواسمبلیاں ٹوٹنے کے
نوے دن کے اندر انتخابات منعقد کرانا لازمی ہے۔انتخابات کا معاملہ عدالت میں بھی پہنچ گیا جہاں عمران خان کی رٹ پٹیشن پر سماعت کا آغاز ہوگیا ہے ۔اس وقت انتخابات کا معاملہ بہت دلچسپ ہو گیا ہے ۔پی ڈی ایم کی حکومت ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے بعد اب ووٹ سے جان چھڑائو کے اصول پر عمل کرکے انتخابی عمل سے ہی راہِ فرار اختیار کرتی نظر آتی ہے ۔جمہوریت میں ووٹ سے فرار کا کوئی تصور نہیں ہوتا بلکہ ہر مسئلے کا حل ووٹ میں ہی ہوتا ہے ۔ایسے میں جب ایک ملک آئین کے تحت کام کر رہا ہو اور ووٹ آئین کا تقاضا ہو تو انتخابی عمل سے منہ موڑنے کا کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اُلٹی گنگا بہائی جا رہی ہے ۔یہاں ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے کرتے لوگ ووٹ کو بھول جائو کی راہ پر چل پڑے ہیں اور اس روش کا تعلق صرف ایک خوف سے ہے ۔وہ خوف یہ ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو عمران خان بھاری اکثریت سے جیت کر حکومت بنائیں گے اوریوں وہ تنہا قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں آئیں گے ۔جس کے بعد موجودہ حکومت کے احتساب اور دوسرے قوانین کی ترامیم کو ریورس کریں گے ۔خوف کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔اگر خوف کو اپنے اوپر طاری کر لیا جائے پھر ایک شخص گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا ۔سیاسی جماعتوں کو عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے کی تیاری کرنی چاہئے ۔عمران خان مقبول ہیں یا ان کا بیانیہ عوام کو ازبر ہو چکاہے تو حکومت کے پاس وسائل ہیں اقتدار واختیار ہے وہ اس کا توڑ اپنے انداز سے کر سکتی ہے ۔جس بھونڈے طریقے سے اور پچھلی صدی کی زنگ آلود چھری سے عمران خان کی حکومت کو ذبح کیا گیا اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا ۔تیز دھار چھری کا استعمال یہ ہوتا کہ کہ عمران خان کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی جو صرف ڈیڑھ سال رہ گئی تھی اور ڈیڑھ سال میں ان کے ہاتھ کوئی جادو کی چھڑی لگنے والی نہیں تھی مگر خوف کو عزت دینے کے نفسیاتی عارضے کا بھی کیا علاج ؟اقتدار کی بے تاب تمنا نے پی ڈی ایم سمیت پوری قوم کو بند گلی میں لاکھڑا کر دیا اور ہر دس بارہ سال بعد سایہ فگن ہونے والے موسم کے آمد کی باتیں ہو رہی ہیں۔فرد واحد سے جان چھڑانے کا حل یہ نہیں ساری سیاسی بساط کو ہی لپیٹ دیا جائے ۔سیاست کے خلا کو غیر سیاسی قوت پورا کرے گی۔اس لئے حکومت کو آئین سے روگردانی کا دروازہ کھولنے کی بجائے سودوزیاں کے پیمانوں سے بالاتر ہو کر آئین پاکستان کے ساتھ جڑا رہنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ