”بھارتی سیاست کے پرانے چہرے نیا انداز”

2014میں بھارتی جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بھارت میں دو جماعتی نظام ختم ہونا شروع ہوگیا تھا اور یوں لگتا تھا گویا نریندر مودی کی سربراہی میں بھارت یک جماعتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ تاثر2019کے عام انتخابات میں مزید مضبوط ہوگیا جب لوک سبھا کی 500سے زائد نشستوں میں سے وہ جماعت صرف50نشستیں ہی حاصل کرنے میں ہی کامیاب ہو سکی جس جماعت نے بھارت کی آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ جس جماعت کا حصہ بھارت اور پاکستان کے بانیان مہاتما گاندھی اور قائدِ اعظم محمد علی جناح بھی رہ چکے ہیں۔ جس جماعت نے کم و بیش60سال کی جدو جہد کے بعد بھارت کو انگریز راج سے آزاد کرایا۔ راجیو گاندھی کے1989میں قتل کے بعد سے ہی کانگریس زوال کی جانب گامزن تھی اور بالخصوص لیڈرشپ کا فقدان ہی اس جماعت کے نیچے جانے کا سبب بنا۔ جس مین وقت کے ساتھ ساتھ یہ خلا اسقدر بڑھ گیا جس کی وجہ سے ان بنیاد پرست جماعتوں کو اس کی جگہ لینے کا موقع ملا جو بھارت کی آزادی کے وقت سے ہی بھارت کو ”ہندو راشٹر”بنانے کے خواب دیکھتی آ رہی تھی۔
نوے کی دہائی میں بابری مسجد کو شہید کیئے جانے والے واقعے کے بعد بھارت کی سیاست میں بنیاد پرستی نے مزید گہرے اثرات چھوڑے جو1999میں اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں ہندو بنیاد پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت سے جیت کا سبب بنا۔ جبکہ دوسری جانب راجیو گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس جماعت کی سربراہی7سال تک پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے سپرد تھی جو بعد میں ان کی اہلیہ سونیا گاندھی نے1997میں سنبھالی۔ سونیا چونکہ اطالوی شہری تھی اور رومن کیتھولک چرچ کے زیرِ اطاعت اٹلی میں انکی پرورش ہوئی تھی اس لئے بھارت میں انہیں غیر ملکی سمجھا جاتا رہا۔ ان کے عقائد اور اٹلی سے تعلق کو ہی بنیاد بناکر بی جے پی نے بھارتی سیاست میں اپنی جڑیں مزید مضبوط کیں یہ تاثر دیکر کہ کانگریس بھارت کی نہیں بلکہ غیر ملکیوں کی جماعت ہے جس پر بھارت اور بالخصوص ہندومت عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے۔ اگرچہ1999 میں اٹل بہاری واجپائی کو کارگل میں مشرف کی جانب سے ملنے والے ایلیمنٹ آف سرپرائز کی وجہ سے ملکی سیاست میں شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ 2004کے عام انتخابات ہار گئے تھے مگر تب بھی بی جی پی سونیا گاندھی کے مسیحی عقیدے کو بنیاد بناکر کانگریس کو ٹارگٹ کرتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ سونیا نے خود وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بجائے اپنے ہی جماعت کے ایک سکھ رہنما منموہن سنگھ کو وزیراعظم نامزد کیا۔ مگر بی جے پی کے وار تب بھی ختم نا ہوئے۔ کانگریس چونکہ2004کا انتخاب تو ہار گئی تھی مگر اسی دور میں بھارتی ریاست گجرات میں نفرت انگیزی پنپ رہی تھی۔2017میں سونیا گاندھی نے کانگریس کی صدارت چھوڑ کر باقائدہ اپنے بیٹے راہول گاندھی کو اتارا کیونکہ اس کے مقابلے میں اب بی جی پی کو نریندرا مودی لیڈ کر رہے تھے جنہیں انکی انتہا پسندانہ کارروائیوں کی بنیاد پر اور2002میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی وجہ سے ہندو انتہا پسند حلقوں میں مقبولیت حاصل تھی۔ ایسے میں سونیا کے لئے ضروری تھا کہ گاندھی خاندان کے چشم و چراغ کو ہندوستانی طور طریقوں میں ڈھال کر سیاست میں اتارا جائے تاکہ وہ گانگریس کی گرتی ہوئی ساخت کو دوبارہ بحال کرسکے مگر تب شاید کافی دیر ہوچکی تھی۔
منموہن سکھ کی حکومت کے اختتام تک گانگریس کی اتحادی یو پی اے حکومت جو پہلے ہی2013کے چوپرگیٹ اگستالینڈ اور2012کے کول گیٹ کرپشن کے الزامات کی وجہ سے شدید دبائو میں تھی اب اس کے سامنے ”بوچر آف گجرات”نریندرا مودی کھڑا تھا جو نا صرف مسلمانوں کے خلاف اپنے بغض کی وجہ سے مشہور تھا بلکہ اپنی تقریر کی مہارت سے بھی وہ اپنے سننے والوں کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کے برعکس راہول کی زبان ہر تقریر میں پھسل جاتی تھی جو بعد میں سوشل میڈیا پر مذاق اور میمز کا سبب بنتی تھی۔ ایسے میں راہول گاندھی کے لئے اب اپنی آبائی جماعت کی ساخت کو بچانا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا کیونکہ انہیں تو پہلے ہی ہندوستان میں ”ولایتی بابو”اور”پپو” جیسے القابات سے بی جے پی کی سوشل میڈیا ٹرول آرمی نے مشہور کردیا تھا۔ اس کے علاوہ کانگریس نے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ منموہن سنگھ کے دورِ حکومت میں سرمایہ دارانہ مخالف سرگرمیوں نے بھی اس جماعت کو سرمایہ داروں میں غیر مقبول کردیا تھا اور نا ہی اس نے کبھی الیکٹرانک میڈیا پر توجہ دی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے میڈیا سمیت امبانی اڈانی ٹاٹا برلا جیسے بڑے سرمایہ دار اب بی جے پی کی کیمپوں میں شامل ہوگئے جو 2014اور2019کے عام انتخابات میں کانگریس کی بری طرح سے شکست کی صورت میں نکلا۔
مگر اب بھارت میں سیاسی فضا بدلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ راہول گاندھی جسے ”پپو”کہہ کر بی جے پی اپنے سیاسی مفاد حاصل کرتے ہوئے بھارتی جنتا میں کانگریس کا قد چھوٹا کرتی تھی اور یہ تاثر دیتی تھی کہ کانگریس ”دیش دروہی”اور عافل عناصر کی جماعت ہے اب وہی راہول ایک نئے انداز کے ساتھ بھارتی سیاست میں ابھر رہا ہے اور یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ2014میں قائم ہونے والے اس نئے اسٹیٹس کو کو ختم کرے گا۔ ”بھارت جوڑو یاترا”اس کی پہلی کڑی ہے جس میں اس نے بھارت کے جنوبی شہر کنیا کماری سے پچھلے سال ستمبر میں آغاز کیا اور مقبوضہ جموں کشمیر تک جنوری تک جاری رہا۔ اس مارچ کے دوران تمام تقاریر میں جو روپ راہول گاندھی کا دکھائی دیا وہ بے جے پی اور ہندوتوا اسٹیبلیشمنٹ کے لئے ناقابلِ یقین تھا۔ راہول گاندھی نے ڈنکے کی چوٹ پر شہر شہر انہیں یہ پیغام دیا کہ اب یہ انہیں ہندو مسلم تقسیم کی سیاست کرنے نہیں دیں گے۔ راہول نے اس پورے مارچ میں بار بار گلوان کا ذکر کرکے بھی بی جے پی پر جارحانہ وار کیئے جس کا 60کلومیٹر اسکوائر کا علاقہ 2020میں بھارت کی فوج سے چین نے صرف لاٹھیوں کا استعمال کرکے چھینا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس مرتبہ اس نے نریندرا مودی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے بھارتی میڈیا اور ان سرمایہ داروں کو نشانہ بنایا جن کے بل بوتے بی جے پی اس وقت بھارت پر حکومت جمائے بیٹھی ہے۔ ”بھارت جوڑو یاترا”کے تحت راہول گاندھی نے خاص ان شہروں اور علاقوں سے گزرنے کا انتخاب کیا جو بی جے پی کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ اور عوام میں یہ پیغام دیا کہ وہ انہی کی جماعت بھارت کو آزادی دلانے والی جماعت ہے اور یہی دوبارہ اس ملک کو ہندوتوا سوچ سے آزادی دلائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندرا مودی اس ابھرتے ہوئے نئے گانگریس لیڈر کو کس طرح سیاسی طور پر زیر کرے گا اور بھارتی جنتا میں جو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اسے کم کرے گا۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ