ایک نفسیاتی مرض کے مریض

ہمارے کالج کے ایک ہیڈ کلرک کا اپنی بیوی سے گھر میں ہر دوسرے روز جھگڑا پڑا رہتا، ایک عرصہ بعد معلوم ہوا کہ بیوی اپنے شوہر کے خراٹوں کی آواز سے بڑی تنگ آچکی ہے، کسی دوسرے کمرے میں سونے کے باوجود جب اس کی آواز سے جاگ اُٹھتی ہے تو شوہر کو بھی گالیاں دے کر اٹھا دیتی ہے، بس پھر آپس میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے، اسی طرح ایک سرکاری کالونی میں رہنے والے دو پڑوسی بھی اچانک آپس میں لڑ پڑتے، ایک کو شکایت تھی کہ پڑوس میں کپڑے دھونے والی مشین کو پورے صحن میں گھسیٹ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے آنے جانے پر شور کی وجہ سے اُس کا بوڑھا والد سخت پریشا ن ہوتا ہے، دوسرے پڑوسی کو یہ شکایت تھی کہ رات گئے اس کا والد جب کھانستا ہے تو کھانسی کی آواز سے میری نیند اڑ جاتی ہے، ہمارے ایک دوست الیکٹرانک میڈیا پر حالات حاضرہ اور سیاسی مباحث میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں مگر وہ ایک صحافی کی آواز سن کر اتنے غضبناک ہو جاتے ہیں کہ کہیں چینل تبدیل نہ ہوا تو اپنے ٹی وی کی سکرین کو بھی توڑ سکتے ہیں یوں تو پوری قوم کو کئی امراض لاحق ہیں لیکن ہمارے ملک میں بے یقینی کی صورتحال اور بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب اس نفسیاتی مرض نے ایک اکثریت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے جو مخصوص آوازیں سن کر انتہائی پریشان ہو جاتے ہیں، مغربی سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق مختلف آوازیں سن کر تکلیف محسوس کرنے کی اس حالت کو ”مسو فونیا” کہا جاتا ہے، اس پر مزید تحقیق بھی جاری ہے، ماہرین کی بہت سی رپورٹس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں کھانے، چبانے اور قلم کو مسلسل کھولنے اور بند کرنے کی آوازوں سے مریض کو نفرت ہو جاتی ہے، ہمارے ہاں تو ان علامات سے بڑھ کر اب ایسی ایسی علامات اور حرکات دیکھنے میں آتی ہیں بلکہ ہمارے اندر بھی موجود ہوتی ہیں جو اس مرض کے زمرے میں داخل ہیں، یہ عام سی بات ہے کہ پریشر ہارن ، لاؤڈ سپیکر اور شادی بیاہ کے موقع پر ڈی جے کا شور وہاں سننے والوں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔
ہمارے ارد گرد تو اب ایسی کئی آوازیں سننے کو ملتی ہیں جو بڑی گراںگزرتی ہیں، لوگوں کا لب و لہجہ ، راہ چلتے بلند آواز سے پکار، پبلک ٹرانسپورٹ میں بے ہنگم موسیقی، عادتاً گاڑی کا ہارن بجانا اور موبائل پر اونچی آواز میں باتیں کرنا اب معمول بن چکا ہے، اسی طرح گلی کوچوں میں بچوں کا پٹاخے پھوڑنے اور بہت سی تقریبات میں بندوقیں چلانے سے لوگ اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ہمیں شور کرنے کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ کسی کام کی غرض سے کہیں بھی چلے جائیں اور وہاں پہلے سے کچھ لوگ موجود ہوں تو ایک ایسا غل غپاڑہ ہوتا ہے کہ اپنی بات نہیں کہی جاتی بلکہ ذہن پر یہ مرض اثر انداز ہونے لگتا ہے، ہمارے ایک شاعر دوست عمران عامی نے شاید مسو فونیا کے زیر اثر یہ شعر کہا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ذرا سی خاموشی
اب اتنے شور میں ہم کیا تمہیں سنائی دیں
ایک ماہر نفسیات سے جب اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے کئی ایسے مریضوں کا ذکر کیا جو مختلف آوازیں سن کر عجیب نفسیاتی حالت کے شکار ہوئے، وہ ہنسنے لگے کہ بسا اوقات میں بھی مسو فونیا کا مریض بن جاتا ہوں جب پاس گزرتے ہوئے موٹر سائیکل کے انجن کی شدید آواز سنتا ہوں، سڑک پر اپنے پیچھے آنے والی گاڑی کا بلا سبب ہارن دینے اور کسی پیشہ ور بھکاری کا میری گاڑی کے شیشے کھٹکھٹانے سے نہ جانے کیا کیا کچھ بڑبڑانے لگتا ہوں، اگر بیوی بچے بھی گاڑی میں ساتھ ہوں تو میری یہ حالت دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں، انہوں نے ایک بچے کے بارے بتایا جو زیادہ وقت خاموش رہتا اور رات کو سوتے میں کبھی کبھی زور سے رونے لگتا، اس کا سبب یہ تھا کہ بچے کا والد اپنے گھر میں ملازمہ بچی کی معمولی غلطی پر تشدد کیا کرتا، اس بچی کی دلخراش چیخوں سے اس کا اپنا بچہ دہل جاتا اور باپ کو کچھ نہ کہنے کے ڈر سے سکوت کا شکار ہو گیا۔
اس نفسیاتی مرض اور ارد گرد پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں اپنا اور چند ہم خیال دوستوں کے روئیے کا جائزہ لینے لگا کہ کہیں ہم لوگ کم یا زیادہ اس عارضہ کا شکار تو نہیں ہوئے، یہ جائزہ لینے کا خیال اس لئے آیا کہ قومی سطح پر اہل سیاست اور خاص کر صاحبان اقتدار کی ایسی بہت سی باتیں، الزامات اور دھمکیاں بار بار سننے میں آرہی ہیں جسے سننے کے بعد ہم اس بچے کی مانند ایک ذہنی کیفیت رکھے مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، یہ دعوے مدت سے سن رہے ہیں کہ ملک بہت جلد ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہو گا، انصاف دہلیز تک پہنچائیں گے، کرپشن کو مکمل ختم کر دیں گے اور عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی، اسی طرح جب کوئی تبدیلی یا نیا پاکستان بنانے کی جگالی کرنے لگتا ہے، چور اور ڈاکو ؤں کو پکڑنے کی بڑھکیں مارنے، کسی کو کافر اور غدار قرار دینے ، آمریت کی وکالت کرنے دہشت گردی کے حق میں تاویلیں گھڑنے لگتا ہے تو ہماری خاموشی بھی اس مرض کی علامت ہے ، شاید یہ بھی اس عجیب مرض کا نتیجہ ہے کہ کوئی اپنے آپ کو خطرناک کہہ کر دھمکی دے اور سننے والے صرف مسکرانے لگ جائیں، اب کے ستم یہ ہوا کہ پشاور اور صوبہ کے دیگر شہروں میں جاری بم دھماکوں کی آواز آتی ہے تو سب پر خاموشی کی ہسٹریائی کیفیت طاری ہو جاتی ہے تاہم جب کوئی جادوئی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے، شاعری دلوں کے تار چھیڑتی ہے، پازیب کی جھنکار بجتی ہے اور دلگداز سُر کسی سحر انگیز آواز سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو یقین کریں کہ ایسے میں مسو فونیا کا گمان بھی نہیں گزرتا۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟