بوجھ بے معنی سوالوں کے اٹھا رکھے ہیں

مرحوم محمد خان جونیجو یاد آ گئے، کیوں یاد آئے؟ پہلے ایک خبر کا جائزہ لیتے ہیں جو گزشتہ روز سے گردش کر رہی ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ کابینہ چھوٹی جبکہ بڑی گاڑیاں بند کی جائیں گی، ریٹائرڈ افسروں کی مراعات ختم، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں کم ہوں گی، پانچ لاکھ سے زیادہ پنشن نہیں ہو گی، بیورو کریٹس، ججوں اور افواج کے افسروں کو ایک سے زیادہ پلاٹس نہیں دیئے جائیں گے، مجوزہ تجاویز کفایت شعاری کمیٹی کی جانب سے دی گئی ہیں جن سے وزیر اعظم شہباز شریف نے اتفاق کر لیا ہے، اس حوالے سے ایک اور اطلاع جو سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ محولہ تجاویز دراصل آئی ایم ایف کی جانب سے ہیں جنہیں مبینہ طور پر بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور انہی تجاویز کو دیکھ کر سابق وزیر اعظم مرحوم محمد خان جونیجو یاد آ گئے جنہوں نے ضیاء الحق کی غیر جماعتی اسمبلی کے تحت قائم حکومت میں بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد ایک تو ضیاء الحق سے مارشل لاء کے خاتمے کی تاریخ مانگ لی تھی اور دوسرا یہ کہ صدر سے لے کر وزیر اعظم اور اعلیٰ حکام سے بڑی اور لکژری گاڑیاں واپس لے کر انہیں چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور کیا، انہوں نے ملک میں جمہوریت اور مارشل لاء کے ساتھ ساتھ چلنے کی صورتحال کو قبول کرنے سے انکار کیا جبکہ بچت کیلئے صرف8سو سی سی گاڑیاں استعمال کرنے کا نہ صرف حکم دیا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی بتا دیا، اور یہی وہ صورتحال تھی جس نے ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کے نہ صرف کان کھڑے کئے بلکہ اندر ہی اندر ان احکامات کو اپنی تذلیل سمجھا اور جتنی جلد ہو سکے محمد خان جونیجو سے جان چھڑانے کی تدبیر کرنے پر آمادہ کیا، دراصل یہ ایک ایسی صورتحال تھی جسے محاورے کے مطابق ہماری بلی ہمیں سے میائوں، کے الفاظ سے یاد کیا جا سکتا ہے، خصوصاً بڑی اور لگژری گاڑیوں سے اتار کر چھوٹی گاڑیوں میں بٹھانے سے ” طاقتور حلقوں ” نے اسے اپنی سبکی قرار دیتے ہوئے اسے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا، اس لئے صبر کا تلخ گھونٹ پی کر یہ حلقے وقت کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے اور جیسے ہی موقع ہاتھ آیا، محمد خان جونیجو بے چارہ ایک غیر ملکی دورے سے واپسی پر ابھی فضا میں محو سفر تھا کہ ضیاء الحق نے اسے آئین میں خود ساختہ ترمیم کا پہلا نشانے بناتے ہوئے اقتدار سے محروم کر دیا، اگرچہ محمد خان جونیجو کو اقتدار سے ہٹانے کے اور بھی کئی کارن تھے خصوصاً افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے کیا جانے والا عالمی معاہدہ جس کے کئی پہلو تھے بالکل معمے کے چلیپائی اشارے کی مانند، تاہم اصل غصہ مرحوم کے ان احکامات کا تھا جن کی وجہ سے ملک کے طاقتور حلقوں نے لگژری گاڑیوں کی جگہ چھوٹی گاڑیوں پر سفر شروع کیا تھا، اب ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے کہ نہ صرف بڑی گاڑیوں کی بندش کی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ دیگر مراعات، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں کم، پنشن کو پانچ لاکھ تک محدود کرنے، پلاٹوں کی بندر بانٹ پر پابندی لگانے وغیرہ غیرہ جیسے اقدامات سے وزیر اعظم نے اتفاق کر لیا ہے حالانکہ جن طبقوں پر یہ قوانین لاگو کئے جائیں گے ان کو ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہے، اس لئے،” تیرا کیا بنے گا کالیا؟ ” کی مانند کفایت شکاری کمیٹی کو اس بات پر ضرور سوچنا پڑے گا کہ اس کی وجہ سے ضیاء الحق دور کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم والی صورتحال پیدا نہ ہو جائے، کہ بقول منیر نیازی
بوجھ بے معنی سوالوں کے اٹھا رکھے ہیں
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
جونیجو مرحوم نے اگرچہ اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کر کے مقدمہ بڑی بے جگری سے لڑا تاہم اس دوران بستی لال کمال کا سانحہ پیش آیا جس میں ضیاء الحق اور ان کے کئی اہم ساتھی اور امریکی سفیر بھی ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد عدالت کو یہ حوصلہ ہوا کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر کر سکے تاہم نئے آرمی چیف کی مبینہ مداخلت سے نئے انتخابات کیلئے پیش رفت کو رول بیک کرنے کی جونیجو مرحوم کی خواہش پوری نہ ہو سکی ، اس لئے سوچنا پڑے گا کہ اگر مجورہ تجاویز کی پشت پر مبینہ طور پر آئی ایم ایف نہیں ہے تو پھر ان تجاویز کا کیا حشر ہونے والا ہے اور کیا” جونیجو ” کی کہانی ایک بار پھر دوہرائی جائے گی یا ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر” بڑے لوگ ” واقعی قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں گے؟یعنی بقول شاعر
مجلس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا سا
پھر سوچو ہاں، پھر سوچو ہاں، پھر سوچو خاموش رہو
ادھر محترمہ مریم نوازنے گزشتہ روز ایبٹ آباد میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران جس گڑھے مردے کو اکھاڑ کر زندہ کرنے کے حوالے سے بیان داغا ہے یعنی صوبہ ہزارہ کے قیام پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اگرچہ اسے صرف الیکشن سٹنٹ ہی قرار دیا جا رہا ہے تاہم سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی اور اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے بھی اس پر اپنے اپنے طور پر ردعمل دیتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے، تاہم مشتاق غنی کے بیان کے اس حصے پر کہ صوبہ ہزارہ کا چورن فروخت کرنے میں ناکامی ہوئی، ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اب ضلع ہزارہ کے لوگوں کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ ملک میں نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ اتنا سیدھا سادھا نہیں ہے جتنا اسے بعض لوگ جذبات میں لپیٹ کر بس ایک اشارے سے حل کرنے کی توقع لگائے ہوئے ہیں، ایمل ولی خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پختونخوا کی تقسیم کی کوشش پہلے بھی ہو چکی ہے جس میں ن لیگ ناکام ہو چکی ہے، موجودہ ملکی حالات میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے اس قسم کی باتیں کرنا اتحاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے، دو سیاسی جماعتوں کے صوبائی رہنمائوں کی جانب سے صوبہ ہزارہ کے حوالے سے مواقف کے بعد اگر ہم محترمہ مریم نواز کے بیان پر غور کریں تو انہوں نے بقول مشتاق غنی صرف چورن بیچنے کی کوشش کی ہے اور اس میں بھی وہ ناکام ہوئیں یا نہیں، اس سے قطع نظر انہوں نے لیگی کارکنوں کو دوتہائی اکثریت والے ٹرک کی بتی کے پیچھے ضرور لگا دیا ہے، کیونکہ یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ آنے والے انتخابات ( اگر اور جب بھی ہوں) میں جب تک ان کی جماعت کو دو تہائی اکثریت نہیں ملے گی، یہ لال بتی والا ٹرک شاہراہ سیاست پر اسی طرح دوڑتا رہے گا، اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ صوبہ ہزارہ کی سوچ ایک فارسی مقولے کے مطابق ” ایں خیال است و محال است و جنوں” کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ نئے صوبوں کا قیام غیر آئینی نہ ہوتے ہوئے بھی آئینی موشگافیوں کے تار عنکبوت میں الجھا ہوا ہے اور بقول ایوب خاور
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
پنجاب میں پہلے ہی جنوبی پنجاب صوبے کی صدائیں ایک عرصے سے گونج رہی ہیں، اس سے جان چھڑانے کیلئے بعض سیاسی جماعتوں نے اس کے مقابلے میں صوبہ بہاولپور کا مسئلہ کھڑا کر رکھا ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا تب تک کسی اور صوبے کی تقسیم کے بارے میں بات کی تو جا سکتی ہے مگر ایک پرانی پاکستانی فلم سات لاکھ کے مشہور ڈائیلاگ، سات لاکھ روپے کی جائیداد جس میں تم رہ تو سکتی ہو کرایہ وصول نہیں کر سکتی…وغیرہ وغیرہ، نئے صوبوں کی تشکیل اتنا آسان بھی نہیں یعنی اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا، پہلے صوبائی اسمبلی میں قرار داد لا کر دو تہائی اکثریت سے منظور کرانا ہو گی، اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کی منظوری کیلئے تگ و دو کرنا پڑے گی جو اتنا سادہ کھیل بھی نہیں ہے، اس لئے تو مریم بی بی نے ہزارے والوں کو دو تہائی کا لالی پاپ تھما کر انہیں خوش کر دیا، یعنی کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا، اب اگر کوئی اس خیال پر لالی پاپ سے بھی چوس چوس کر ” مٹھاس ” کشید کرنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی، یعنی بقول مرزا غالب
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ