نویں آئینی ”پھواڑے ”

الیکشن کمیشن کے اس جوابی مراسلے کے بعد کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ چونکہ عدالت میں زیرسماعت ہے اس لئے اس پر مشاورت نہیں ہوسکتی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 20 (1) کے تحت دونوں صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو شیڈول جاری کرنے کے لئے خط لکھ دیا۔ الیکشن کمشن نے بدھ کو صدر مملکت کو بھجوائے گئے خط میں انہیں آگاہ کیا کہ آئین کے تحت صدر کا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دینے کا کوئی کردار ہے نہ ہی الیکشن کمیشن صدرمملکت سے مشاورت کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت انتخابات کرانے ہیں یہی اس کی ذمہ داری ہے، گزشتہ روز صدر مملکت نے آئینی اداروں کے کردار پر گفتگو میں متوجہ کیا کہ اگر آئینی ادارے آئین میں دیئے گئے فرائض و اختیارات کے مطابق کردار ادا نہ کریں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ نکتہ اپنے آئینی کردار سے تجاوز کرکے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے وقت انہوں نے مدنظر کیوں نہیں رکھا۔ ثانیا یہ کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک دن سابق وزیر داخلہ فرمائش کرتے ہیں کہ صدر مملکت سوموار کو دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دیں یا اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں اور دو دن بعد صدر مملکت دو صوبائی اسمبلیوں کی تاریخ مقرر کر دیتے ہیں ان کے اس عمل پر ہی ناقدین انہیں صدر مملکت کی بجائے عمران خان کا کارکن قرار دے رہے ہیں۔ تحلیل شدہ دو اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے صدارتی فرمان پر آئینی ماہرین اور سیاسی حلقوں کی اکثریت کا موقف یہی ہے کہ یہ اعلان آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے سے زیادہ سیاسی وفاداری کے اظہار کی کوشش ہے اور یہ کوشش ایسے وقت میں کی گئی جب ملک کو سیاسی و معاشی عدم استحکام کے ساتھ دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔ قبل ازیں صدر مملکت پچھلے سال تحریک عدم اعتماد کی موجودگی میں اس وقت کے وزیراعظم کی سفارش پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فرمان بھی جاری کرچکے ہیں ان کا وہ فرمان بھی آئین شکنی کے زمرے میں آتا تھا اب حالیہ صدارتی حکم تو خالصتاً اپنی سیاسی جماعت سے محبت کا اظہاریہ ہے حالانکہ صدر مملکت کے طور پر اپنے انتخاب کے بعد انہیں ریاست کے صدر مملکت کے طور پر فرائض ادا کرنے چاہئیں تھے مگر افسوس کہ انہوں نے قدم قدم پر خود کوایک سیاسی جماعت کے کارکن کے طور پر پیش کیا، الیکشن کمیشن کو مشاورت کے لئے خط لکھنے سے قبل جن دو افراد سے صدر کے مشورے کی خبریں ہیں بدقسمتی سے ان دونوں کو آئین کی الف بے بارے کچھ بھی معلوم نہیں، مملکت کے صدر کی حیثیت سے انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ وہ اپنے آئینی منصب سے تجاوز کرکے جو فرمان جاری کررہے ہیں اس سے سیاسی بحران سنگین صورت اختیار کرسکتاہے، متعدد وفاقی وزراء اور آئینی ماہرین کی جانب سے صدر مملکت کے اس حکم کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ان کے مواخذے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ صدر مملکت خود بھی آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے سیاسی شہادت کے خواہش مند ہیں، آئین کے مطابق صدر مملکت کو صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہے وہ بھی اس صورت میں جب وہ وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی گئی سمری کی منظوری دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا
اعلان کریں، اپنے حالیہ حکم میں انہوں نے الیکشن کمیشن 2017ء کی شق 20 (1) کا جو حوالہ دیا اس میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ صدر مملکت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرسکتے ہیں، بعض حلقے یہ دعوی کررہے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی جماعت تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک سے دو دن قبل دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اعلان کرکے سیاسی تحریک کو غذا فراہم کی ہے، اس رائے کو یکسر نظرانداز کرنا ممکن نہیں کیونکہ بدقسمتی سے وہ ماضی میں بھی آئینی کردار کی بجائے سیاسی کردار ادا کرکے مسائل پیدا کرتے آئے ہیں، یہ بدقسمتی ہی ہے کہ صدر کو مملکت کے آئینی سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے آئین کی بجائے اپنے سیاسی ساتھیوں کی طرف دیکھنا اور ان کی فرمائشوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ بدھ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائے گئے خط میں واضح انداز میں انہیں متوجہ کیا گیا کہ صدر اور الیکشن کمیشن کی مشاورت آئینی ضرورت ہے نہ ہی صوبائی اسمبلیوں کی تاریخ مقرر کرنا صدر مملکت کا اختیار۔ دوسری جانب وفاقی حکومت صدر کے اس اقدام کو غیرقانونی قرار ہی نہیں دے رہی بلکہ اسے چیلنج کرنے اور صدر کے مواخذے پر مشاورت بھی کر رہی ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ صدر کے انتخاب کا الیکٹوریل کالج مکمل نہ ہونے کی صورت میں مواخذے کا عمل ممکن ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں ایک رائے یہ ہے کہ مواخذے کا عمل اور صدر کا انتخاب دو الگ معاملے ہیں۔ بہرطور اس حوالے سے کیا فیصلے ہوتے ہیں حکومت کیا لائحہ عمل اپناتی ہے اور صدر اپنے اقدام کے درست ہونے کا کیا جواز پیش کرتے ہیں۔ بظاہر اب یہ معاملہ عدالت میں ہی جاتا دکھائی دیتا ہے، اس صورت میں حتمی فیصلہ عدالت کا ہی ہوگا البتہ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہر معاملہ عدالت میں لے جانے کی بجائے اگر
سیاستدان باہمی مشاورت سے حل کرنے کی سوچ اور جذبے کا عملی مظاہرہ کریں تو بہت سارے مسائل اور بحران پیدا ہی نہ ہوں۔ صدر مملکت اپنے اقدام کے جواز میں کہتے ہیں کہ چونکہ صوبائی گورنرز اور الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پائے اس لئے میں نے دو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کی تاریخ مقرر کی۔ یہ بہت عجیب بلکہ مذاق اڑانے والی بات ہے۔ ایک ایسا معاملہ جس میں صدر کا کوئی کردار ہی نہیں وہ اس میں کردار ادا کرنے کو آئینی فریضہ قرار دیتے ہیں۔ کیا صدر مملکت اس وقت ملک کو درپیش سنگین مسائل سے لاعلم ہیں، کیا سیاسی عمل میں طویل مدت سے سرگرم شخصیت کو یہ معمولی سی بات سمجھ میں نہیں آسکی کہ آئینی حدود سے تجاوز کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ہماری دانست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش پر گامزن سیاسی قیادتوں میں سے ایک کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر صدر مملکت نے اپنے منصب سے انصاف نہیں کیا نیز یہ کہ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہمارے ہاں انفرادی و اجتماعی دانش کی جگہ جذباتیت کا دور دورہ ہے، یہ صورتحال بہرطور افسوسناک ہے۔ یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ آئین اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں 90 دن میں انتخابات کرانے کے معاملے میں بہت واضح ہے، کسی قسم کی تاخیر یقیناً نہیں ہونی چاہئے اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے گورنرز کا حکم جاری نہ کرنے کا معاملہ نہ صرف تنازع پیدا کرنے کا موجب بنا بلکہ دونوں صوبوں میں یہ معاملہ عدالتوں تک پہنچ چکا، اندریں حالات دونوں صوبوں کے گورنروں نے عدالتوں کو جواب دینا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب معاملہ عدالتوں میں زیرسماعت ہے تو صدر مملکت نے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اعلان کیوں کردیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب بہرطور صدر مملکت کو ہی دینا ہے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال