غربت ، امارت اور دولت کی تقسیم

ہمارے مُلک میں بیک وقت غربت اور امارت کی جھلکیاں ہر طرف دکھائی دیتی ہیں، اب تو دن بہ دن غربت اور امارت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ پلازوں میں خریداری، مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھانے والوں کا جم غفیر، شادی بیاہ کے موقع پر پیسے کی نمائش اور سڑکوں پر قیمتی گاڑیوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہاں کوئی غریب نہیں اور مہنگائی کا بس یونہی واویلہ کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ کوئی دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے، کسی کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں اور کچھ لوگ سر چھپانے کے لئے چھت ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ہی ایک خاموش اکثریت انا کا بوجھ لئے بڑی مشکل سے زندگی کے دن کاٹ رہی ہے، ہمارے چند دوست جب مل بیٹھتے ہیں تو شدید معاشی بحران اور مہنگائی کے روز افزوں اضافہ کے باعث یہی کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی یہاں معیشت کی سمت متعین ہی نہیں کی، مُلک آزاد ہوا تو امریکہ اور اس کے حواری سرمایہ دار مُلکوں نے ڈالرز دے کر اب تک ہمیں قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور ہماری قومی معیشت کی حیثیت ایک طفیلی معیشت میں تبدیل ہو گئی، حکمرانوں کی نا اہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے قومی سرمایہ داری کی بجائے اجارہ داری نے جنم لیا ، صنعت اور تجارت مخصوص لوگوں اور گروہوں کے ہاتھ میں آگئی اور مُلک معاشی عدم تقسیم کا شکار ہو گیا، ہر بار نئے آنے والے حکمران گزشتہ حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ کسی کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہوتی کہ عوام کو معیشت کے کٹھن حالات سے بچائے رکھے اور مُلک میں طبقاتی تقسیم کی اُلجھنیں پیدا نہ ہوں، ایک چینی فلاسفر کنفیو شس نے بہت پہلے یہ حقیقت بیان کی تھی کہ اچھی حکمرانی میں غربت شرم کی بات ہے اور بری حکمرانی میں دولت ایک شرمناک چیز ہے، ہمارے ہاں غربت کی ایک بڑی وجہ خراب حکمرانی بھی ہے کہ جس میں بد انتظامی سے لے کر بد عنوانی تک بہت کچھ آجاتا ہے، کسی بھی مُلک میں خواہ کتنے ہی وسائل اور عوام کو آسودہ
حال رکھنے کے ذرائع موجود کیوں نہ ہوں، اگر نا اہل اور مفاد پرست بر سر اقتدار ہوں تو وہ مُلک ترقی کر سکتا ہے نہ غربت ختم ہو سکتی ہے، ایک اچھی حکومت قائم رکھنے یا اس کے قیام میں کئی اسباب شامل ہیں لیکن سب سے اہم اور بنیادی عنصر جمہوری نظام کا تسلسل ہے جو عوام کے سیاسی شعور اور نظریاتی فکر سے جِلا پاتا ہے، ہمارے ہاں پائی جانے والی غربت کی کئی وجوہات میں ایک دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جو غیر جمہوری اور کسی سماجی فکر سے آزاد بدانتظام حکومت کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتی ہے، تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہمارے سامنے روس
، چین اور اسی طرح کیوبا سمیت کئی ممالک کے انقلابات ہیں جہاں قومی وسائل کو از سر نو تقسیم کیا گیا اور چند ہاتھوں میں پائی جانے والی دولت منصفانہ طریقہ سے تقسیم کی گئی، اس طرح کے اقدامات سے ایک بڑی آبادی کو غربت سے باہر نکالا گیا لیکن جب یہ ممالک نظریاتی انتشار اور حکومت کی بد انتظامی کا شکار ہوئے تو یہاں بھی آمریت پسندی، لوٹ مار، اقربا پروری اور بدعنوانی عام ہوئی، حکمر انوں نے اپنی بد اسلوبی اور نا اہلی کو چھپانے کے لئے سیاسی جبر اور انسانی حقوق کو سلب کرنا شروع کر دیا، دُنیا کے بہت سے ممالک میں جہاں جمہوری نظام کا شفاف عمل جاری رہا اور عوام کو اپنے حقوق میسر رہے وہاں دولت کی منصفانہ تقسیم کے ایسے اصلاحی طریقے اختیار کئے گئے کہ خوشحالی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں، تعلیم ، صحت ، روٹی، کپڑا اور مکان کسی بھی مُلک کے شہریوں کی بنیادی ضرورتیں ہیں جن جمہوری ریاستوں نے تعلیم اور صحت کی ذمہ داری قبول کی اور اپنے شہریوں
کی ان ضروریات کو بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا وہاں ضرورت مند بڑی حد تک آسودگی میں ہیں۔ یہ بجا کہ پاکستان سمیت کئی دیگر غریب ممالک میں فی الوقت ایسے اقدامات مشکل دکھائی دیتے ہیں مگر ایک ایسی طویل جدوجہد کی ابتدا ضرور کرنی پڑے گی کہ یہاں سماج کی بہتری اور خوشحالی کے لئے وہ نظام وجود میں آئے جو بدعنوانی اور اقرباء پروری سے پاک ہو، وسائل بروئے کا ر لائے جائیں، جمہوری فکر کی پاسداری ہو، انصاف ہو، احتساب و جواب دہی کا عمل ہو، اپنی اقتصادی حکمت عملی ہو اور معاشرے میں طبقاتی امتیاز نہ رہے، آج دنیا میں اتنی پیداواری صلاحیت اور اتنے وسائل موجود ہیں کہ اسے منافع خوری کی بجائے انسانی ضروریات کے مطابق بروئے کار لا کر بھوک اور معاشی استحصال کو کم کیا جا سکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قدرتی وسائل اور انسانی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والے پیداواری ذرائع پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے، یہ نجی ملکیت صرف سرمایہ داروں کے منافع اور سرمایہ کاری کی محافظ ہے، انسانی محنت اس سرمایہ میں اضافہ کرتی ہے مگر محنت کش پھر بھی بھوکا اور بے توقیر ہے، اب تو انسانی محنت کو بھی روبوٹس اور جدید مشینوں سے تبدیل کیا جا رہا ہے، ہمارے مُلک میں دولت کی منصفانہ تقسیم اور طبقاتی تضاد کو کم کرنے کے عمل میں کئی رکاوٹیں ہیں، سرمایہ دار اور با اثر طبقہ قانون کا مکمل احترام نہیں کرتا، ٹیکس کی عدم ادائیگی بھی ایک مسئلہ ہے اور اس کی وصولی کے نظام میں بھی نقائص موجود ہیں، سیاست کی پہچان اب کوئی نظریہ نہیں بلکہ پیسہ ہے، اسی لئے قوم کی قیادت مالدار کے پاس ہے اور وہ سب اقتدار میں آکر ٹیکس کے تردد سے آزاد ہو جاتے ہیں، ریاست ایک معقول آمدنی سے محروم رہتی ہے اور مفاد عامہ کے کام رک جاتے ہیں، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ بھی یہاں غربت اور امارت کے کئی اسباب ہیں جسے نمایاں کرنے کو کئی کالم لکھنے کی ضرورت ہے، ان کا سد باب بھی ضروری ہے ورنہ یہاں مافیا برابر مافیا کا ساتھ دیتا رہے گا۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے