آخر کب تک

نیپرا کے چیئرمین نیپرا نے کہا ہے کہ زیادہ تر بجلی درآمدی فیول سے پیدا کی جارہی ہے لہٰذا لوگوں کو اس کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔نیپرا کے چیئرمین کے اس بیان کو اگر صریح لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس کا مطلب کچھ یوں ہوگا کہ عوام اور تجارتی وصنعتی صارفین سبھی بجلی کی قیمتوں میںاضافے اور بھاری بھر کم بلوں کی ادائیگی کے لئے کمر کس لیں حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک میں سستی آبی بجلی اور تھرمل بجلی کوئلے سے بننے والی بجلی یعنی ہر قسم کی پیدا شدہ بجلی پر ایندھن سرچارج کی مسلسل وصولی ہو رہی ہے جو بجلی مہنگی ایندھن سے بنتی ہے وہ اپنی جگہ مگر جو بجلی دیگر ذرائع سے بھی پیدا ہوتی ہے اس پر بھی ایندھن سرچارج کی وصولی ہوتی ہے جس کا کوئی جواز نہیں قبل ازیںحکومت کی جانب سے بجلی صارفین سے موخر ادائیگیوں کی وصولی کااعلان ہو چکا ہے ۔ جس سے صارفین کیلئے بجلی 24روپے24 پیسے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان ہے اس کے علاوہ 200یونٹ والے پروٹیکٹڈ صارفین سے10روپے34 پیسے فی یونٹ200 سے300 یونٹ والے نان پروٹیکٹڈ صارفین سے 14روپے24 پیسے فی یونٹ اور زرعی صارفین سے9 روپے90 پیسے فی یونٹ وصولی کی درخواست کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے درخواست کی ہے کہ موخر کردہ وصولیاں انہی مقررہ مہینوں میں ہی وصول کی جائیں۔ایک جانب منی بجٹ اور ٹیکسوں کی بھرمار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ایندھن کی بڑھتی قیمتیں اور بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافہ اور ساتھ ہی موخرادائیگیوںکی تیاری جس میں فی استعمال شدہ یونٹ پر کم و بیش چودہ روپے وصول ہو گی نیپرا کی جانب سے حکومتی استدعانہ کبھی پہلے مسترد ہوئی ہے اور نہ اب ہو گی بلکہ یہ ایک رسمی کارروائی ہے جسے اگر چھری تیز اور مزید تیز کرنے کا عمل اور دورانیہ قرار دیا جائے تو عوامی جذبات کی درست ترجمانی ہو گی گرمیوں میں اولاً بجلی آتی ہی نہیں اس قدر بھاری ادائیگیوں اور وصولیوں کے باوجود حکومت صارفین کو مہنگی ترین بجلی کی فراہمی تک کے قابل نہیں ہوتی اورپھربھاری بلوں کی وصولی کے باوجود موخر ادائیگیوں کے نام پر وصول شدہ بل کے مساوی رقم مزید بلوں میں شامل کر دیتی ہے سمجھ سے بالاتر امر ہے کہ حکومت اس قدر مہنگی بجلی پیدا ہی کیوں کرتی ہے آبی سستی بجلی کوئلے سے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور تھرمل پاور سے ایندھن کی فراہمی جیسے دعوئوں کی حقیقت آخر کب سامنے آئے گی اور عوام کو ان وسائل کو بروئے کار لا کر آخر اس مشکل سے نجات کب دلائی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو