دروازے پر دستک

آئین کی تاریخ نشاندہی کر تی ہے کہ گزشتہ پچھتر چھیتر سال کے عرصے میں متعدد مر تبہ آئین پاکستان نے عدلیہ کے دروازے پر دستک دی ہے ، ہر دستک فکر مندی کے لمحات کے ساتھ لو ٹی ہے ، ابھی گزشتہ روز سپر یم کو رٹ آف پاکستان کے معزز جج چیف جسٹس عمر عطابند یا ل نے انتخابات کی تاریخ کے اختیا رات کے بارے میں از خود نو ٹس کی سماعت کے دوران فرمایا ”آج آئین پاکستان نے خود ہمارے دروازے پر دستک دی ہے” اس لیے ازخود نو ٹس لیا گیا ،ویسے اس سے قبل بھی کئی مرتبہ فریادی ہو کر آئین پاکستان عدلیہ کے دروازے پر پہنچا ہے اورعدلیہ کا در وازہ متعد د مر تبہ آئین پاکستان نے مختلف صورتوں یا روپ میں کھٹکھٹایا ہے ، برسوں پر انی بات ہے مگر کل کی طرح آج بھی تازہ ہے کہ جب گورنر جنرل غلا م محمد نے اپنی پوری رعونت اور فرعونیت کے ساتھ آئین کو روندا، تو آئین پاکستان اپنی فریا د مولوی تمیز الدین کو برقع میں ملفوف کرکے اور ایک آٹو رکشہ میں سوار کر کے عدلیہ کے دروازے پر دستک گزار ہوا مگر جسٹس منیر نے بے نیل ومر ام لوٹادیاپھر 1956کا سال آیا یوں ہواکہ قوم اس پارلیمانی جمہو ری آئین کے ذریعے پہلی مرتبہ عام انتخابات کی جا نب قدم بڑھا رہی تھی کہ یکایک ملک کے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف نے اسے کوڑے دان میں اٹھا پھینکا ، وہ بھی گرتا پڑتا عدلیہ کے دروازے پر جا کر عدل کے لیے دست گیر ہوا مگر وہا ں سے بھی وہ ہی ہوا جو اس سے پہلے کا ہو اتھا ۔ پھر 1969میںایک اور ڈکٹیٹر نے اس کی دھجیا ں کر کے ہو ا میں بکھیر دیں یہ پرزے اس طرح اڑائے کہ ملک بھی دولخت ہو گیا ، پھر اسی کی دہائی میں عاصمہ جیلانی (عاصمہ جہا نگیر ) کیس میں نظریہ ضرورت آئین پاکستان کی فریا د کھا گیا ، لیکن ایک مرتبہ ایساہوا کہ جب ایک منتخب اور آئینی حکومت نے ایک کمانڈو کو ملا زمت سے فارغ کیا تو اس نے اپنی گوریلا چھلانگ سے آئینی حکومت پر شب خون ما را اور پاکستان کے متفقہ آئین کو لہو لہان کردیا ، یہ زخم خوردہ آئین بھی عدلیہ کے دروازے پر دستک دینے پہنچا جس پر جسٹس جناب سعید الزما ں صدیقی نے آئین کو لگنے والے چرکو ں کی تشخیص کے لیے نظر دوڑائی تو ایک پی سی او حکم نا مہ جاری ہو ا جس کی زد میں سعید الزماں صدیقی اور ان کے ساتھ دوسرے پانچ ججوں کو گھر بیٹھا دیا گیا ، لیکن یہ بھی ہوا کہ آئین کا حلف اٹھانے والے بعض عنا صر نے ارشاد حسن خان کی طر ح پی سی او کے تحت حلف اٹھاکر اپنی وفاداری آئین کی جگہ پی سی او رائج کرنے والے کے پلڑے میں ڈال دی اور آئین پاکستان اپنا سوکھا سامنہ لے کر رہ گیا ، اس کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ میں میں کمال بھی ظہو ر پذیر ہو ا کہ ارشاد حسن خان نے پی سی اوکے ذریعے مسند سنبھالنے کے سرور میں ایک فوجی آمر کو یہ انعام بھی عطا کر دیا کہ اپنی مر ضی سے آئین میں ترمیم کر کے اپنی مر ضی کا آئین خود بنا لے ، کیا فیا ضی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ایسی سخاوت و فیاضی کی مثال تو حاتم طائی سے بھی نہیںہو پائی تھی ، ان نوازشات کے بعد کما نڈو نے وہ آئینی گوریلہ کارروائیا ں کیں جس کو آج بھی قوم بھگت رہی ہے ۔پاکستان کا رائج الوقت آئین جو متفقہ اور پارلیمنٹ سے جمہوری طور پر منظور کردہ ہے اپنی زندگی کی گرم
سرد ادوار سے گزرکر زندگی کی پچاس بہا ریں اور خزائیں دیکھ چکا ہے مگر اس کی توانائی میں کوئی کمی واقع نہیںہو پائی ہے خواہش پر ستوں ، آمر وں ، موقع پر ستوں اور آئین شکنوں نے اس کی مٹی پلید کر نے کی بسیار کاوشیں بھی کیں لیکن یہ عوام کا متفقہ آئین ہے اس لیے اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا ، ایک جنرل ضیا ء الحق جیسا آمر مطلق بھی ہو گزرا ہے ، اس نے بھی بڑی رعونت سے کہا تھا کہ آئین کی کیا حثیت ہے کا غذ کا ٹکڑا ہے جب چاہو ں اس کے پرزے پر زے کرکے اسے ہو ا میں اڑ ا دوں مگر زبان سے بڑ ما رنا اور ہے ہمت اور شے کا نا م ہے ، بڑے بڑے آئین شکن آگے بڑھے کہ اس کو روند دیا جا ئے مگر وہ یہ نہیں جا نتے کہ پارلیمنٹ کے تما م فیصلے چاہیے وہ تما م کے تما م اتفاق رائے سے ہو ں یا کثرت رائے سے ہو ں وہ عوام کے فیصلے ہوتے ہیں کیو ں کہ عوام نے ہی پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کر کے پارلیمنٹرین کو بھیجو ا یا ہوتا ہے ۔ پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلو ں کو کھر ج دیا جا ئے ۔چنانچہ کسی بھی ملک یا قوم کا آئین اس قوم اور ملک کی فضیلت قرار پا تا ہے انسان ہی نہیں ہر جا ندار زندگی آئینی اصولو ں کے تحت ہی بسر کر تا ہے فتنہ و فساد اس ہی وقت بپا ہو تا ہے جب زندگی بے آئین ہو جائے ۔آج جو یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی معیشت عملی طور پر آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر پہنچ گئی ہے اس کی وجہ کیا ہے ، اس کی واحد وجہ آئین سے انحراف ہی ہے ۔ کیا سیا سی تحریکوں کے نا م ہلچل پیدا کرنا ، کسی کی خواہش کو آئین کا غلا ف پہنانا ، ملک کے استحکام کو ضعف پہنچانے کے برابر قرار نہیںپا تا ، یہ سب سے بڑالمحہ فکریہ ہے کہ آئین بار بار عدالت کے دروازے پر دستک دے ، سیا سی جما عتوں کو یہ بھی جھانکنے کی ضرورت ہے کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ گزشتہ پچھتر سالو ں میں کیا سیاست دانو ں نے آئین کا کھر ا ساتھ دیا ، کیا آئین شکنو ں کا ساتھ دینے میں سیا ست دان ہم قدم نہیں تھے ، جب عد م اعتما د کی تحریک کی سرگرمیا ں جا ری تھیں کیااس وقت ایک بڑے سیاستدان نے نہیں بتایا کہ ان کو انھو ں نے پیغام دیا کہ ادھر نہیں ادھر چلے جا ؤ ، کیا ایسی شخصیت سیاستدان کے زمر ے میں آتی ہے کہ جو ”ان ” کے حکم پر وعدہ خلافی کر تا ہے معاہد ہ توڑتاہے وہ کس بات کا سیاستدان ہے ۔ سیاسی رہنما کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی قیا دت کرے نہ کہ لوگوں کی قیادت میں قدم بڑھا ئے ، یہ جو ”ان ” ٰیا ” انھو ں ” کی بات کرتے ہیں یا پکا ر تے ہیں کیا یہ سیا سی رہنما ہو سکتے ہیں یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کوپرکھیں ، تاکہ آئین پاکستان کو عدل کا دروازہ بار بار کھٹکھٹانے کی نو بت نہ آئے ۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز