وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

چیئرمین تحریک انصاف نے جو 10نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس کے تحت ان کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔عمران خان نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے نظام کو درست کرنا ہو گا۔جب ہم نے سسٹم ٹھیک کر لیا، تو اوورسیز پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کریں گے۔عمران خان نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے ایکسپورٹر کو وی آئی پی بنانا ہو گا۔ سیاحت اور معدنیات پر توجہ سے بھی پاکستان میں ڈالر آ سکتے ہیں۔ ہم سمال اور میڈیم انڈسٹری بڑھانے پر کام کریں گے۔ ہم نے زراعت کی پیداوار بڑھانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹیکس زیادہ اکھٹا کرنا ہے۔ نادرا کے ساتھ مل کر ہم نے چار کروڑ ٹیکس دینے والوں کی شناخت کی جو پیسے نہیں دیتے۔پلان کے تحت ملک سے منی لانڈرنگ کو روکنا ہے۔تحریک انصاف کے قائد اگر سابق وزیر اعظم نہ ہوتے اور ایک مرتبہ قبل ان کے منصوبے طشت ازبام نہ ہو چکے ہوتے کم از کم اپنے مدت اقتدار میں وہ اپنی ترجیحات کے حصول میں سنجیدگی بھی اختیار کر چکے ہوتے تو ان کے محولہ دس نکات سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی تھیں بدقسمتی سے صرف وہی نہیں دیگر حکومتوں کے ادوار میں بھی صورتحال کم و بیش یہی رہی کرونا کی وباء تو قدرتی رکاوٹ تھی لیکن بجائے اس کے کہ اپنی حکومت کی کامیابی اور اپنے منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دی جاتی وہ اس وقت تک دیگر مصروفیات میں گھرے رہے جب مہلت کاوقت ختم ہو چکا تحریک انصاف پنجاب میں اگر ایک نااہل شخص اور خیبر پختونخوا میں ایک غیر فعال شخص کو وزیر اعلیٰ مقرر کرکے ان کو نہ ہٹانے کی ضد پر نہ اڑتی اور مرکز میں وزرائے خزانہ کی تبدیلی اور کابینہ میں بار بار تبدیلی کی بجائے روز اول سے اہل اور قابل افراد کی اس ٹیم پر انحصار کرتی جس کا اعلان انہوں نے الیکشن سے قبل کر رکھا تھا تو شاید حالات مختلف ہوتے اب ان کا منصوبہ خواہ کس قدر بھی عملی کیوں نہ ہو شکستہ اعتمادی کے باعث حوصلہ افزاء صورتحال کی توقع وابستہ کرنا مشکل ہے اس وقت ملکی حالات ہر حکومت کے لئے ساز گار نہیں جو بھی سیاسی جماعت ملک و قوم کی بھلائی کی خواستگار ہے سب سے پہلے اسے ضد اور انا کی دیوار گرا کر ملکی ماحول کوساز گار بنانے میں کردار ادا کرنا ہو گا اس کے بعد ہی آئندہ کے لئے اعتماد کی بنیادیں پڑیں گی اور اپنے منصوبوں پر عملدرآمد کی نوبت آنے پر سعی پیہم ممکن ہوگی۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو