یہ جن ا یسے قابو نہیں آئے گا

عالمی حالات اور معمول کی مہنگائی اپنی جگہ رمضان المبارک کے ایام میں چیزوں کی قیمتیں مرضی کے مطابق وصولی کی روک تھام کی بڑھتی شکایات کے بعد حکومت کی جانب سے سیکرٹریز کو مہنگائی کنٹرول کرنے کی ذمہ داری تفویض کرنا اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز ‘ اسسٹنٹ کمشنرز اور ان کے ماتحت عملے اور دیگر سرکاری محکموں کی ناکامی کا عملی اعتراف ہے عوامی سطح پر اس میں شک کی گنجائش نہیں تھی اور عوام انتظامی افسران کی بری طرح کی ناکامی پر تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے بہرحال حکومت نے آخری چارہ کار کے طور پر جو قدم اٹھایا ہے اس کی کامیابی سے بھی زیادہ امیدیں وابستہ کرنا خوش امیدی ہی ہوگی اس لئے کہ ان انتظامی سیکرٹریز نے بھی آگے کام اسی ناکام انتظامیہ ہی سے لینا ہے جن کی ناکامی اور بے حسی ضرب ا لمثل بن چکی ہے نگران حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس ناکامی پر تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو باقاعدہ تحریری مراسلہ دے کر سرزنش کرتی تاکہ ان کو اس امر کا احساس ہوتا کہ اس بے حسی سے اب خود ان کی فائل میں بھی ایک ناخوشگوار مراسلے کا اضافہ ہو گیا ہے جب تک اس طرح کے اقدامات نہ ہوں کہ خود ان افراد کی ملازمتوں اور ترقیوں کی راہ کی رکاوٹ نہ بن جائے وہ کبھی بھی عوام کے مفاد اور اپنے سرکاری فرائض پر توجہ نہیں دیں گے ۔ اس وقت پورے صوبے میں سوائے ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے باقی کسی پر بھی عوام کا اعتماد نہیں محولہ ڈپٹی کمشنر کا بھی بار بار تبادلہ ہوتا ہے لیکن اپنے متعلقہ ضلع میں مہنگائی پر قابو پانے میں ان کا بھی کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا باقی پورے صوبے میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی جس کے ضلعی انتظامی سربراہ پر عوام کو اعتماد ہو جہاں تک حکومت کی جانب سے سیکرٹریز کو فرائض تفویض کرنے کا عمل ہے اس کے بھی ایک ناکام تجربہ ہونے کے خدشات بے جا نہیں جس ڈویژن کا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بے بس ہو ا ہو وہاں پر کسی ایسے محکمے کے سیکرٹری کو مہنگائی کنٹرول کرنے کا انتظام سونپنا جس کا محکمہ ہی غیر متعلقہ ہو کیسے کامیاب ہو سکتا ہے اس کا جواب ماضی میں خود چیف سیکرٹری اور دیگر اہم عہدوں پر فائز رہنے والے نگران وزیر اعلیٰ ہی دے سکتے ہیں۔ بہرحال انتظامی سیکرٹریز کو حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ان اضلاع کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ان کو اشیائے خورونوش کی چیکنگ اور نگرانی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔اس انتظام کے تحت گویا پورا صوبہ سیکرٹریز کے حوالے کیا گیا ہے اس میں اس امر کی وضاحت نہیں کہ ان حضرات کی انتظام کاری کے درجات و انتظامات کیا ہوں گے ۔ کمشنر ز اور ڈپٹی کمشنرز ان کو جواب دہ ہوں گے یا پھر ان کی کوئی الگ حکومت ہو گی لگتا یہی ہے کہ یہ حضرات پہلے سے موجود عملے ہی کی مدد سے کام کریں گے ایسے میں کیا یہ بہتر نہ تھا کہ وزیر اعلیٰ متعلقہ افسران کی ناکامی اور عملے کے خلاف سخت نوٹس لیتے اور ان کو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کی سرزنش کی جاتی انتظامی طور پر صرف اس مہنگائی کو قابو کی جا سکتی ہے جو سرکاری نرخناموں کی پابندی نہ کرتے ہوئے اور ناجائز منافع خوری کرتے ہوں یہ بھی حسن ظن کے طور پر ہی قیاس ہے وگر نہ ان سے اتنی بھی توقع عبث ہے مہنگائی کی واحد وجہ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی نہیں بلکہ مہنگائی کی دیگر بڑی وجوہات ہیں جن کا تعلق روپے کی قدر میں کمی ایندھن کی نرخوں میں اضافہ مختلف قسم کے ٹیکس سیلز ٹیکس اور درجنوں دیگر عوامل ہیں جن کا حل کسی نگران صوبائی حکومت کے پاس اور اس کی مقرر کردہ انتظامیہ کے پاس نہیں البتہ جس ملی بھگت سے منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے اور چیزوں کی صبح ایک شام کو دوسری قیمت وصول کی جاتی ہے روٹی کا وزن کم اور دودھ ‘ دہی ملاوٹ شدہ ہونے کے باوجود مہنگی ہوتی ہے سبزیوں کی من مانی قیمتیں وصول ہوتی ہیں پھل اور دیگر اشیاء تو سرے سے عام آدمی کی دسترس میں ہی نہیں رہیں اس لئے ان کا تذکرہ ہی عبث ہے گوشت ‘ مرغی ‘ انڈے تو ثانوی چیزیں ہیں جب آٹا ہی مہنگا مل رہا ہو تو پھر اس طرح کے حالات کو قابو کرنے کا انتظامی طریقہ موثر نہیں ہو گا حکومت کی جانب سے بد انتظامی اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجود مفت آٹا کی فراہمی احسن عمل ہے اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ساتھ سستا بازار لگانے اور وہاں پر اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کی جستجو کی ضرورت ہے ۔ یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء ہی دستیاب نہ ہوں آٹا ہی نہ مل رہا ہو تو ان کے وجود کی ضرورت ہی کیا۔ حکومت کے اس اقدام کی وقعت اور کامیابی و ناکامی جلد سامنے آئے گی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ اس طرح کے نمائشی و نامکمل اقدامات کی بجائے مسئلے کے حل کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات و انتظامات کی ضرورت ہے جب تک کثیر الجہتی اقدامات سامنے نہیں آئیں گے سطحی طور پر کئے گئے اقدامات کامیاب نہیں ہوسکتے اور عوامی شکایات میں کمی نہیں لائی جا سکے گی۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ