آخر کب تک؟

پاکستان کے ریاستی انتظام میں چلنے والے کاروباری اداروں کا مجموعی خسارہ اثاثوں کی مالیت سے بھی زیادہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں عوامی وسائل میں نقصان اور اداروں کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری کمپنیاں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے عوامی فنڈز سے مجموعی طور پر458ارب روپے سے زائد نگل لیتی ہیں اور مالی سال2021میں ضمانتیں جی ڈی پی کا تقریباً 10فیصد تھیں جبکہ2016میں 3.1فیصد تھیں۔ عالمی بینک نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس رجحان کی تبدیلی کے لیے مضبوط اصلاحات متعارف کروائیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ خسارے کی وجہ سے وفاقی حکومت کو مالی مشکلات اور فنڈز کے ضیاع کے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور یہ ادارے2016سے سالانہ بنیاد پر اوسطاً جی ڈی پی کے0.5 فیصد کے ساتھ مسلسل مالی نقصان کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مالی اخراجات کے2023کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی کمپنیاں جنوبی ایشیائی خطے میں کم ترین منافع کمانے والے اداروں میں شامل ہیں ۔ریاستی وحکومتی انتظام کے تحت چلنے والے کارپوریشنوں اور دیگر اداروں کی کارکردگی میں انحطاط درانحطاط کے اس سنگین سے سنگین تر ہوتے مسئلے کا بہتر حل ان کی نجکاری ہے جس کی طرف بوجوہ اس لئے توجہ نہیں دی جارہی ہے کہ ان اداروں کے ذمہ واجبات اورملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دینے کے لئے بھی بھاری رقم درکار ہوگی جس کا بندوبست ان حالات میں ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کے ملازمین اور پنشنرز کو تقریباً ہرماہ عدم ادائیگیوں کی شکایت رہتی ہے جس سے قطع نظر یہ ادارے اب ملکی خزانے اور عوام پربوجھ بن چکے ہیں اب اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ان اداروں میں بے تحاشا بھرتیاں اور نااہل افراد کی تقرریاں بدعنوانی اور بددیانتی ہی ان اداروں کولے ڈوبی اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو گی کہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اور سرکاری امور کا تجربہ حاصل کرکے ان اداروں میں آنے والے بھی ان اداروں کو خسارے سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے بلکہ الٹا ان پربوجھ بن گئے سرکاری کارپوریشنوں اور حکومت کے زیر انتظام نیم خود مختار اداروں میں بھاری تنخواہیں اور مراعات بھی بوجھ میں اضافے کا باعث ہیں پاکستان ریلوے ‘ پی آئی اے اور ٹرانس پشاور جیسے ادارے اس کی مثال ہیں جس طرح کے حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں حکومت آخر کب تک ان اداروں کوپالتی رہے گی اور قومی خزانے کا مزید کتنا ضیاع ہوگابنا بریں اس حوالے سے جلد سے جلد اقدامات اٹھانے اور ان پر پوری طرح عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش