میں تو کمبل کوچھوڑتا ہوں مگر۔۔۔

ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ہر شخص اپنی رائے اور تجزیے کا حق رکھتا ہے، آرمی چیف اس بات اعادہ کرتے ہیں کہ اصل طاقت کا محور عوام ہیں، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں، پاکستان کی فوج قومی فوج ہے، ہم کسی خاص سیاسی جماعت یا نظریہ کے حامی یا اس کی طرف راغب نہیں۔ افواج پاکستان کی خلاف جو باتیں کی جارہی ہیں وہ غیر آئینی ہیں۔ فوج کسیخاص سیاسی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتی۔انتخابات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کی الیکشن کے لیے245کے تحت تعیناتی کی جاتی ہے، وزارت دفاع الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کو اپنا موقف دے چکی ہے جو زمینی حقائق کے مطابق ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان کی تربیت، قانون اور ڈسپلن ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ہر بے بنیاد الزام اور تنقید کا جواب دیں، ہم تعمیری تنقید کو اہمیت دیتے ہیں لیکن ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ دنیا کی کسی اور فوج کی طرح افواج پاکستان کو دھونس اور فریب سے دبائو میں نہیں ڈالا جا سکتا۔باوجود اس کے کہ پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے واضح طور پر اور بار بار تردید ہوتی آئی ہے پھر بھی بعض عناصر الیکشن کے لئے سکیورٹی کی فراہمی کے حوالے سے معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اسے ایک خاص جانب جھکائو سے تعبیر کرتے ہیں اور اس پریس کانفرنس کو ایک ٹھوس پیغام کے طور پردیکھتے ہیں حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں بلکہ اس طرح کے واشگاف اعلان کے بعد اس بات کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے کہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جائے مشکل امر یہ بن گئی ہے کہ اولاً بعض عناصر یہ ماننے کے لئے ہی تیار نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کردار ختم ہو سکتا ہے دوم یہ کہ مخالف سیاسی عناصر دوسروں کی سرپرستی اور اپنی محرومیوں کے لئے شکوہ کناں ہیں اور ہر قیمت و صورت اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے حصول کی تگ و دو میں رہتے ہیں ان کی تنقید کا ہدف بھی معاملات کی درستگی کے لئے متصور ہوتا ہے جب تک سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ اور انداز فکر رہے گی مکمل طور پر لاتعلقی اختیار کرنے اور عملی طور پر اسے ثابت کرنے کے باوجود بھی عاقبت نااندیش عناصر باز نہیں آئیں گے اس طرح کے عناصر کو بہرحال براہ راست جواب نہیں دیا جا سکتا لیکن ان کی قیادت کو سخت پیغام بھجوا کر اس سے باز آنے کا طریقہ تو موجود ہے جس کے بغیر اس طرح کے عناصر شاید ہی باز آئیں۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''