بلوچستان کی آبادی

گرمی میں بھی گیس ناپید

گیس کی لوڈ شیڈنگ اور پریشر کم ہونے کے باعث گھریلو صارفین کیساتھ ساتھ کمرشل صارفین بھی مسائل کا شکار ہیں۔ گیس کاپریشر کم ہونے اور گیس لوڈشیڈنگ کے باعث پشاو ر کے لاکھوں گھریلو صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ کمرشل سطح پر بازاروں میں ہوٹلز اور تندور مالکان کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں گیس سے چلنے والے اڑھائی سو کے لگ بھگ صنعتی یونٹس میں بھی گیس کی شدید قلت کی شکایات ہیں اس کے علاوہ سی این جی اسٹیشن بھی بند ہونے کا خطرہ ہے۔ رواں برس سردی میں بھی گیس کی قلت تھی اور لوگوں کو کروڑوں روپے کا نقصا ن ہوا تھابہرحال سردیاں گزر چکیں اور توقع کی جارہی ہی تھی کہ گیس کے استعمال میں کمی کے ساتھ صورتحال بہتر ہو جائے گی مگر یہ خیال درست ثابت نہ ہوا بلکہ مسئلہ بدستور جاری ہے جس کے حل کی بھی اب امید معدوم ہوتی جارہی ہے مشکل امر یہ ہے کہ موسم کی تبدیلی کے باوجود بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں مختصر دورانیہ کیلئے گیس کی سپلائی بحال رہتی ہے جس سے گھریلو اور کمرشل صارفین پر سلنڈر میں فان گیس کا استعمال کرنے کی وجہ سے اضافی مالی بوجھ پڑرہا ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں گیس کھینچنے والی مشینیں بھی گھروں اور صنعتی یونٹس پر لگائی گئی ہیں جس سے گھروں کو بالکل بھی گیس دستیاب نہیں اور گیس کے بل اسی تناسب سے موصول ہورہے ہیں۔بلکہ فکس چارجز لاگو ہونے کے بعد ہر صارف پر ساڑھے چار سو روپے کا سے زائدماہانہ اضافی بوجھ بھی ڈال دیا گیا ہے۔اس کے باوجود گیس بقدر ضرورت دستیاب نہیں قبل ا زیں گیس کی لوڈ شیڈنگ سردیوں تک محدود ہوا کرتی تھی مگر کچھ عرصے سے اب گیس کی گھریلو صرف میں کمی آنے کے باوجود بھی گیس نہیں آتی صنعتی اور کاروباری صارفین گیس اور بجلی دونوں کی ناپیدگی کے باعث خسارے کا شکار ہیں اور کاروبار بند ہو رہے ہیں مزید گیس کنکشنز پرپابندی کے باوجود یہ صورتحال کیوں پیش آئی اور وہ جو بار بار پشاور میں گیس پریشر اور کمی پوری کرنے کے لئے اقدامات کی یقین دہانیاں ہوتی تھیں اس کے باوجود یہ صورتحال کیوں ہے اس کا جواب دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیںگیس صارفین کو گیس کی بقدر ضرورت ناکامی کے باوجود ساڑھے چار سو روپے زائد ماہانہ بوجھ کس کھاتے میں صارفین پر ڈالا گیا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں قبل اس کے کہ عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق متعلقہ دفاتر اور حکام کے خلاف احتجاج اور دفاتر کے گھیرائو پرمجبور ہوں اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے پر توجہ دی جائے ۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت