انصاف کے ساتھ سزا ملنی چاہئے

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ اگر کچھ ہوتا ہے تو اس کے کارکنان سڑکوں پر آتے ہیں، ٹائر جلاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں لیکن کبھی کسی نے فوجی تنصیبات کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔خیبرپختونخوا آمد کے موقع پر سیاسی قائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان میں یہ انتہائی المناک واقعہ پیش آیا اور بطور حکومت ہم تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنہوں نے توڑ پھوڑ کی، جنہوں نے ہدایات دیں، منصوبہ بندی کی اور فوجی تنصیبات پر حملے کے لیے اکسایا، جنہوں نے گالم گلوچ کیا، سویلین تنصیبات پر حملے کے لیے اکسایا وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ سمیت جہاں بھی ایسے واقعات ہوئے وہاں ان قوانین کے تحت عمل شروع ہوگیا ہے اور اس میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ جو بھی ملوث پائے گئے ان کے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی، چاہے اس کے بارے میں وزیر اعظم کہیں یا کوئی اور کیونکہ اگر اس میں ہم نے کڑی سزا نہ دی تو پاکستان کو بے تحاشہ نقصان پہنچ سکتا ہے جس کا سوچنا بھی محال ہے۔دریں اثناء چیف آف آرمی اسٹاف عاصم منیر نے کہا ہے کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ اسلام آبادمیں پولیس کے آفیسرز، جوانوں، پولیس کے شہداء کے لواحقین سے خطاب کرتے ہوئے۔آرمی چیف کا کہنا تھا جو کچھ 9 مئی کو ہوا، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے، شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی اور ان کے وقار کو مجروح کرنے والوں کو قوم نہ معاف کرے گی نہ ہی بھولے گی اور ایسے امر کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔نو مئی کے سانحے کے حقیقی ذمہ دارعناصر کے خلاف کارروائی کے حوالے سے حکومت اور عسکری قیادت ہی نہیں بلکہ پوری قوم یکسو ہے کہ ان عناصر کوکڑی سزا دیجائے اوراس کے پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کیاجائے اس ضمن میں تحریک انصاف کے قائد جن کی گرفتاری سے یہ فسادات پھوٹے نے بھی ان عناصر سے بظاہر لاتعلقی کا اظہار کرکے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی جدید طرز تحقیق اور خاص طور پرٹیکنالوجی کی مدد سے جو عناصران واقعات کی منصوبہ بندی اوران عناصر کو ابھارنے کے ذمہ دارپائے گئے وہ کوئی اور نہیں تحریک انصاف کے قائد خود بالواسطہ اور دیگر رہنما براہ راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی طور ملوث پائے گئے بہرحال اب جبکہ قانون اپنا راستہ لے رہی ہے تو کسی سے بھی رو رعایت نہیں ہونی چاہئے ان افراد کے خلاف مقدمات کے حوالے سے کچھ تحفظات اور اعتراضات سامنے آئے ہیں کہ ان افراد پرمقدمہ عام عدالتوں کی بجائے فوجی قوانین کے تحت نہ چلائے جائیں قانونی طور پر کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن کس چیزکی گنجائش ہے اور کس بات کی گنجائش نہیں اس کی تشریح کے لئے اعلیٰ عدالتیں موجود ہیں تحریک انصاف کوغیرضروری رعایتیں دینے کی جو بازگشت ہے ایسے میں تحریک انصاف کے وکلاء کو اعتماد کے ساتھ فوجی قوانین کے لاگوکئے جانے کے عمل کواعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنا جانا چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھربلاوجہ کی مخالفت اور پراپیگنڈے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ایک جانب ملک و قوم کو اس طرح کے واقعات اور خاص طور پر حکومت اور بالخصوص عسکری قیادت مکمل تاریخ میں پہلی بار معمول سے ہٹ کر احتجاج سے متاثرہوئی ہے اور دوسری جانب فوجی قوانین کے تحت مقدمات پرالٹا انہی کو مطعون کرکے بیرون ملک سے بھی دبائو ڈالوانے کی سعی ہو رہی ہے جس کے حوالے سے آرمی چیف نے بڑاواضح پیغام دیا ہے کہ وہ اس ضمن میں کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے ۔بلاشبہ ہماری قومی تاریخ میں 9مئی کا سانحہ ہمیشہ ایک سیاہ باب کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اہل وطن کویکجہتی اور یگانگت کے بجائے تقسیم و تفریق کا درس دینے اور نفرت و تشدد پر اکسانے والے عناصر کی مذموم کاوشوں کے نتائج اس روز بہت ابھر کر سامنے آئے۔ ملک کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے فوجی جوانوں کی یادگاروں اور عسکری و قومی اہمیت کے مقامات کوتباہ و برباد اور نذر آتش کیے جانے کی کارروائیوں نے ہر ذی شعور پاکستانی کو نفرت کے اس سیلاب کی فوری روک تھام اور اس کے منصوبہ سازوں کے خلاف قرار واقعی قانونی کارروائی کی ضرورت کا شدت سے احساس دلایا ۔ یہ مقصد شفاف ، غیرجانبدارانہ اور منصفانہ عدالتی عمل کے ذریعے ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔تاہم قانونی کارروائی کی تیزرفتاری سے تکمیل بھی وقت کا تقاضا ہے جبکہ سول عدالتوں میں مقدمات کا برسوں جاری رہنا ایک کھلی حقیقت ہے۔مزید یہ کہ 9مئی کے واقعات میں فوجی تنصیبات اور یادگاروں کا نشانہ بنایا جانا ،اس کے ذمہ داروں اور منصوبہ سازوں کو فوجی عدالتوں میں پیش کیے جانے کا واضح جواز مہیا کرتا ہے جبکہ آرمی چیف نے اپنے بیان میں یہ صراحت بھی کی ہے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی اور اس کا طریق کار ملک کے متفقہ آئین ہی سے ماخوذ ہے۔ اس کے باوجود فوجی عدالتوں کے بارے میں اس عمومی تاثر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں انصاف کے تقاضے مکمل طور پر پورے نہیں ہوتے لہذا ضروری ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت چلنے والے مقدمات میں کسی بھی ملزم کو واضح ثبوت و شواہد کی موجودگی اور انہیں منظر عام پر لائے بغیر سزا نہ دی جائے جبکہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی گنجائش بھی معیاری انصاف کی ضمانت فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد