عمران خان کو سوچنا تو پڑے گا

یہ امر بہرطور دوچند ہے کہ 9 اور 10مئی کے واقعات کے بعد سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کو شدید بحران کا سامنا ہے۔ پارٹی کے سینئر نائب صدر فواد چودھری بنیادی رکنیت سے مستعفی ہوگئے جبکہ سیکرٹری جنرل اسد عمر نے پارٹی عہدوں سے استعفی دے دیا۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں اور سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ علاقائی رہنما بھی پارٹی چھوڑنے اکاعلان کرتے دکھائی دیئے۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔9 اور10مئی کے واقعات کو ایجنسیوں کی سازش قرار دینے والے سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ان واقعات کی جوڈیشل انکوائری کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی ہے اس متفرق درخواست میں انہوں نے آڈیو لیکس کمیشن کے قیام کو بھی چیلنج کیا ہے۔ اپنی گرفتاری کے بعد رونما ہونے والے واقعات بارے اولا انہوں نے یہ کہا تھا کہ میں حراست میں تھا مجھے کیا معلوم باہر کیا ہوا۔ بعدازاں ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا جس طرح مجھے گرفتار کیا گیا اس کا ردعمل تو آنا ہی تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں غیرملکی صحافی کو انٹرویو میں کہا ان سار ے معاملات کا ذمہ دار ایک شخص ہے اور وہ ہے آرمی چیف۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ سابق وزیراعظم کے دوچار یا درجنوں نہیں سینکڑوں بیانات اور خطابات کی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ اپنے پہلے موقف کے یکسر برعکس موقف اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمے کو اول دن سے امریکی سازش قرار دیتے ہوئے سائفر لہراتے رہے بعدازاں بتدریج ان کے موقف میں تبدیلی آتی گئی اور اب وہ امریکہ سے تعاون و مدد کی اپیلیں کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کو آج جس بحران یا ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے اس کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تجزیہ خود عمران خان کو ہی کرنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ پارٹی کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کی ذمہ داری خود ان پر کتنی عائد ہوتی ہے۔ بظاہر معروضی حالات اور دوسرے معاملات سے آنکھیں چرانا بھی غلط ہوگا مگر یہ حالات بنے کیسے؟ یہ اہم سوال ہے۔ ان کی جماعت چھوڑنے والے بعض افراد کے اس موقف کو نظرانداز بھی کردیا جائے کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات عمران خان کی خواہش اور منصوبہ بندی کے مطابق ہی رونما ہوئے تب بھی پچھلے ایک برس کے دوران انہوں نے جو جنگی ماحول بنا رکھا تھا اور تواتر کے ساتھ اپنے حامیوں کو جہاد کے لئے نکلنے کی تلقین کرتے دکھائی دیئے حالیہ واقعات کو اس سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ عمران خان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد نفرت و حقارت پر رکھی اپنے ہر مخالف کا مذاق اڑایا اس پر سستے جملے کسے الٹے سیدھے نام رکھے ان کے ہمدرد پوری طرح ان کے رنگ میں رنگے ہوئے ہی ہیں۔ اقتدار سے رخصتی کے بعد انہوں نے پہلا دشمن امریکہ کو قرار دیا پھران کے دشمن بدلتے گئے۔ وزیر آباد میں ہوئے مبینہ قاتلانہ حملے میں انہوں نے ملک کی ایک خفیہ ایجنسی کے اعلی افسر کے ساتھ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو موردالزام ٹھہرایا۔ اسی عرصہ میں انہوں نے اجتماعات سے خطاب اور انٹرویوز و بیانات کے ذریعے اپنے حامیوں کو ایک ایسے راستے پر دھکیل دیا جس پر جانے سے سیاستدان اور ان کے ہمدرد عموما گریز کرتے ہیں۔ یہ سیاسی ناتجربہ کاری کا نتیجہ تھا یا خبط عظمت کا مظاہرہ۔ افسوس کہ وہ اب بھی اس سوال پر غور کرنے کے لئے آمادہ نہیں ستم بالائے ستم ایک طرف وہ موجودہ حالات کا ذمہ دار آرمی چیف کو قرار دیتے ہیں پھر اگلے ہی لمحے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں میری ان سے کوئی لڑائی نہیں وہ میری بات نہیں سننا چاہتے۔ میں تو ان سے صرف الیکشن مانگ رہا ہوں۔ بادی النظر میں ان کی تینوں باتیں سیاسی شعور سے محرومی کے زمرے میں آتی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اس امر کو سمجھ نہیں پارہے کہ سیاسی عمل یا ذاتی زندگی میں آخری بات پہلے نہیں کی جاتی ثانیا یہ کہ الیکشن اور دوسرے مسائل کے لئے انہیں بالآخر حکمران اتحاد سے ہی بات کرنا ہوگی گزشتہ سے پیوستہ روز ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مخالفین کا جس حقارت کے ساتھ ذکر کیا اس کے جواب میں ان کے مخالفین ان پر پھول نہیں برسائیں گے۔ یہ امر ہر کس و ناکس پر دوچند ہے کہ انہوں نے نفرت و حقارت میں گندھی اپنی تقاریر اور حامیوں کو ہلہ شیری سے خود اپنی تباہی کا سامان کیا۔ جبکہ انہیں صورتحال کی نزاکت کا احساس کرکے اصلاح احوال کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی تنہائی سے نجات حاصل کرسکیں۔ ان کے ہر بیان، تقریر اور انٹرویو کا ایک ایک جملہ مخالفین کی توہین پر مبنی ہوتا ہے۔ غالبا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حرف آخر اور ناگزیر ہیں۔ پچھلے اڑھائی عشروں سے اور بالخصوص اکتوبر 2011 سے مخالف جماعتوں کے ہمدردوں کے لئے غلام کی پھبتی کسنے میں مصروف سابق وزیراعظم نے بھی غلاموں کا ایک انبوہ جمع کرلیا ہے جس کے خیال میں ان کا لیڈر حرف بحرف درست اور باقی قابل گردن زدنی ہیں۔ سال بھر کی تقاریر سے ہوئی ذہن سازی کی بدولت وہ اب ریاست کو بھی قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک منفی رویہ درست اور سیاسی مخالفین کے لئے تحمل و برداشت کا مظاہرہ یا ان کے وجود کو تسلیم کرنا اپنے نظریہ کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ تحریک انصاف کو آج جس ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے اس کا سامان خود عمران خان نے کیا انہیں دوسروں کو دوش دینے گرجنے برسنے کی بجائے اپنی ادائوں پر غور کرناہوگا۔ یہ درست ہے کہ حال ہی میں ان کی جماعت سے الگ ہونے والوں کی بڑی تعداد ماضی میں الیکشن مینجمنٹ اور دوسرے ہتھکنڈوں سے دوسری جماعتوں سے پی ٹی آئی لائی گئی تھی اس کے باوجود بہت سارے بانی ارکان بھی حال ہی میں جماعت سے الگ یا عہدوں سے دستبردار ہوگئے۔ یہ نوبت کیوں آئی اس پر عام فہمی انداز میں چار اور آرا دی جارہی ہیں اور یہ بھی کہ سیاسی جماعت تحمل و تدبر کا دامن چھوڑے بغیر پرعزم جدوجہد سے حصول منزل کے لئے کوشش جاری رکھتی ہے ریاست کو براہ راست للکارنے اور اس پر چڑھ دوڑنے سے نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ سکون کے ساتھ اپنی پالیسیوں، ہٹ دھرمی، نفرتوں کی سیاست اور سب کو مٹادو کے جنون کا ازسرنو جائزہ لیں۔ ٹکرائو، تشدد، عدم برداشت اور سب کو دیکھ لوں گا کی بجائے مسلمہ جمہوری اقدار کو اپنائیں۔ وہ اگر اب بھی اپنی جماعت کو ایک سنجیدہ فکر سیاسی جماعت کے طور پر منظم کرکے سیاسی عمل میں آگے بڑھنا چاہیں تو ان کی مقبولیت ان کی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ تصادم کی پالیسی مزید بگاڑ پیدا کرے گی۔ ان کی جماعت کے ساتھ حالیہ دنوں میں ہونے والا سلوک یقینا لائق اطمینان نہیں مگر کیا آبیل مجھے مار کی حکمت عملی پر عمل کرنے کا اس کے سوا بھی کوئی نتیجہ نکل سکتا تھا؟

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار