یہ تو نے کیا کہا واعظ، نہ جانا کوئے ”جاناں” میں؟

بعض خبروں کی سرخیاں دیکھ کر کچھ لطیفے اور اشعار یاد آجاتے ہیں آج ایسی ہی صورتحال ہے یعنی ملکی سیاست میں جو گرما گرمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور وزراء کے بیانات اور ان پر سیاسی جماعتوں کا ردعمل بھی سوچنے پر مجبور کررہا ہے تو دل پشوری کرنے کیلئے کیوں نہ ایسی خبروں پر ہلکا پھلکا تبصرہ کیا جائے، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک ٹی وی چینل کے پرگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ” میں پروگرام کے میزبان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی رہنماء یا کارکن پر اس کے سوا کوئی دبائو یا زبردستی نہیں کہ پی ٹی آئی کا کوئی رہنماء جیل جانے یا سامنے آنے کو تیار نہیں ہم تو جیلوں میں جولائی اگست کے مہینوں کی گرمی میں رہے ہیں اس پر ہمیں وہ لطیفہ یاد آ گیا ہے جس میں شدید سردی سے کانپتے ہوئے ایک شخص کا یہ مکالمہ صورتحال پر زبردست تبصرہ لگتا ہے اور وہ سردی کے ہاتھوں پریشان ہوکر اپنے ساتھی سے کہتا ہے کہ ”یار سردی تو کچھ نہیں کہتی” بس کپکپی سے جان جاتی ہے” اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ پی آئی کے جن رہنمائوں کو 9 مئی کے سانحے کے بعد جیل یاترا کرنا پڑی ہے ان کو جیل کی بیرکوں میں گرمی کے ہاتھوں پریشان ہوکر ”العطش العطش” کہنے پر مجبور ہونا پڑا ہے اور یہ جو پارٹی چھوڑنے والوں کی قطاریں لگ گئی ہیں اس کا کارن شاید سلاخوں کے پیچھے پڑنے والی گرمی ہی ہو حالانکہ ابھی تو گرمی کا سیزن اپنے پورے جوبن پر بھی نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے بیرکوں سے پنکھے اتارنے کا حکم دیا ہے تاہم انہیں شاید وہ ڈائیلاگ یاد آرہا ہے یہ جو ان کے رہنماء نے امریکہ یاترا کے دوران بڑھک مارتے ہوئے کہا تھا کہ میں واپس جاکر ان کے سیل سے اے سی اتار دوں گا اسی پر موصوف نے اکتفا نہیں کیا، اس نے اپنے مخالف سیاسی رہنمائوں کے جیل والے کمروں میں زمین پر چینی پھینک کر چیونٹیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے چھوڑ دیئے اور سی سی ٹی وی کیمرے لگاکر ان کی ”چیخیں” سننے کا پورا پورا بندوبست کرتے رہے اور اسی خوف سے جو بھی باہر نکلتا ہے تو پریشانی اور خوف میں مبتلا دکھائی دیتا ہے، بے شک یہ میرا رب ہی ہے جو انسانوں میں دن پھیرنے پر قادر ہے حالانکہ ان سے پہلے ان کے مخالفین (آج کے حکمران) نے ہمیشہ قید و بند کی سختیاں حوصلے سے برداشت کرتے ہوئے یہی پیغام دیا کہ
یہ تو نے کیا کہا واعظ ؟نہ جانا کوئی ”جاناں” میں
ہمیں تو رہرئووں کی ٹھوکریں کھانا، مگر جانا
خبر ہے کہ زمان پارک کے سویپر (جاروب کش) نے بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جناح ہائوس اور عسکری ٹاور حملہ کیس میں اپنے مالک عمران خان کی ذمہ داری لینے سے انکار پر عمران خان کے ضمانتی مچلکے مسترد کر دیئے، عدالت کے استفسار پر شیرو نامی شخص نے بتایا کہ وہ عمران خان کے گھر پر سویپر کے طور پر ملازم ہے، عدالت نے کہا کہ ہم یہ مچلکے کیسے منظور کرلیں کل کو عمران خان نہ آیا تو تم ذمہ دار ہوگے؟ اس پر شیرو سویپر نے چپ سادھ لی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے سربراہ کو بھی یہ دن کیوں دیکھنا پڑے کہ ”جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے” یعنی صورتحال بالکل انگریز دور میں جنگ عظیم کے دوران لام بندی کے حوالے سے بھرتی کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے دوران جب فوجیوں کی ای ٹیم کسی گائوں میں نوجوانوں کو لینے کیلئے آئی اور پھرتے پھرتے ایک میراثی کے گھر پہنچی تو میراثن نے فوجیوں کو دیکھ کر جو الفاظ ادا کئے وہ ضرب المثل بن چکے ہیں، میراثن نے اپنے اکلوتے بیٹے کو جنگ پر لے جانے والے فوجیوں سے کہا جا پتر اپنی ملکہ سے کہہ کہ ا گر نوبت بہ ایں جارسید یعنی جنگ جیتنے کیلئے اب میراثیوں کو بھرتی کرنے تک کی نوبت آگئی ہے تو اس سے بہتر ے کہ جرمنوں سے صلح کرلے” یہی صورتحال اب عمران خان کی لگتی ہے اور اگر انہیں پورے ملک میں ضمانتی مچلکے داخل کرنے کیلئے صرف ایک گھریلو سویپر ہی رہ گیا ہے تو ان کیلئے یہی مشورہ بہتر ہے کہ قانون کے آگے سرنڈر کرلیں، اگرچہ اس سے پہلے انہوں نے عدالتوں کو پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی بلکہ ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا اور عدالتوں نے بھی ان کی ”آئو بھگت” کرتے ہوئے ”آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی اور رخصت کروقت ”گڈلگ” جیسے الفاظ پر ہی اکتفا کیا تو اب انہیں مچلکے داخل کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے؟شاید صورتحال ابن انشاء کے ان اشعار کی مانند ہے کہ
مجلس میں کچھ حبس ہے اور انجیر کا آہن چبھتا ہے
پھر سوچوہاں پھر سوچوہاں پھر سوچو خاموش رہو
آنکھیں موند کنارے بیٹھو، من کے رکھو بند کواڑ
انشاء جی لو دھاگا لو اور لب سی لو خاموش رہو
پی ٹی آئی نے وفاقی وزیر قادر پٹیل کی پریس کانفرنس پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے قاد پٹیل کی جانب سے جاری کردہ عمران خان کی میڈیکل رپورٹ کے معاملے پر قانونی چارہ جوئی کا اعلان کردیا ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر نے عمران خان کی صحت سے متعلق میڈیکل رپورٹ کی تفصیل میڈیا پر جاری کرتے ہوئے ان پر ”دروغ گوئی” کے الزامات لگائے ہیں اور خصوصاً ان کی ٹانگ پر پلستر کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ان پر کچھ ”ممنوع اشیائ” کے استعمال کا الزام بھی عائد کیا ہے جبکہ پمز کے 5 سینئر ڈاکٹروں کی جانب سے عمران خان کی ذہنی صحت پر اٹھائے گئے سوالات کو بھی موضوع سخن بنایا تھا۔ اس پر تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فرخ حبیب نے شدید ردعمل دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، تحریک کے رہنماء عدالت سے رجوع کرتے ہیں یا نہیں تاہم اخلاقی طور پر اس قسم کی رپورٹ کو میڈیا کے ذریعے سامنے لانے کا کوئی جواز نہیں بنتا، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی وزراء اور دیگر اکابرین کو اس حوالے سے احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہئے تھا، کوئی اپنی پرائیویٹ زندگی میں کیا کرتا ہے اس کی ذمہ داری خود اس پر عائد ہوتی ہے ایک بات البتہ ان انکشافات میں ایسی ضرور ہے جس پر عوام کی اکثریت اصل حقائق جاننے کیلئے شروع ہی سے بے تاب رہی ہے یعنی عمران خان کی ٹانگ پر مبینہ گولیاں لگنے کا دعویٰ جس نے اگر ایک جانب ان کے بہی خواہوں اور پارٹی کارکنوں کو پریشان کئے رکھا تو دوسری جانب جو خبریں خود ان کے ایک معالج اور شوکت خانم سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کی وساطت سے سامنے آئی تھیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں گولی نہیں لگی البتہ گولی کے کچھ ذرات ضرورت لگے ہیں ان دعوئوں کے بعد ان کے مسلسل جھوٹ پر سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیںکیونکہ اسی دعوے کی آڑ میں وہ طویل عرصے تک عدالتوں سے بھاگتے رہے اور عدالتوں نے بھی ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ کسی مستند سرکاری ہسپتال سے معائنہ کرواکے رپورٹ عدالتوں میں جمع کروائیں اس لئے کم از کم اس جھوٹ کی قلعی کھل ہی گئی۔ باقی کے معاملات ان کے بالکل ہی ذاتی اور نجی معاملات ہیں جن پر اگر پردہ پڑا ہی رہتا تو بہتر تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی حکم دے رکھا ہے کہ تم میرے بندے پر ایک پردہ ڈالو میں تمہارے سو عیب چھپا لوں گا۔
لفظ سے بھی خراشیں پڑتی ہیں
تبصرہ سوچ کر کیا کیجئے

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار