جمہوری نظام اور اندیشہ ہائے دُ ور دراز

سورہ المنافقون میں اُن لوگوں کا ذکر آتا ہے جنہیں ” دیکھو تو اُن کے جثے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں ، اُن کی باتیں سنو تو سنتے رہ جاؤ ، مگر یہ گھن کھائی ہوئی لکڑی کے تختے ہیں جنہیں دیوار پر سجا دیا گیا ہو ، اُن کا اندر کھوکھلا ہو چکا ہے ، ہر روز کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں ، یہ پکے دشمن ہیں ، اُن سے بچ کر رہو ، اللہ کی مار اُن پر ، یہ کدھر اُلٹے پھرائے جا رہے ہیں ”۔ یہ فرمان الٰہی مدینہ کے منافقین کے بارے نازل ہوا تھا مگر معلوم ہوتا ہے جیسے ہماری سیاسی صورتحال کی ڈرامائی تصویر پیش کی جا رہی ہو ۔
پاکستان کی سیاست نے ہمارے قومی مزاج کو بگاڑ کر رکھ دیاہے۔ہر سیاسی جماعت کے قائدین اپنے کارکنوں اور حمایت کرنے والوں کی ایسی ذہن سازی کر رہے ہیں کہ کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں اور گھر گھر گلی گلی نفر ت کی فضا پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔اب بد کلامی ،دشنام طرازی اور الزامات کا ایسا کھیل جاری ہے کہ جس سے فضا مزید کشیدہ ہو رہی ہے اور کسی کو کچھ خبر نہیں کہ کیا ہونے والا ہے ۔ہمارے سیاسی رہنماؤں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے ، ایک دوسرے کو چور ڈاکو اور غدار کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔ پہلے قومی اداروں میں بیٹھے ذمہ دار عہدہ داروں کو سر عام گالیاں دی جاتی رہیں اور چند دن قبل ہم سب نے دیکھا کہ جلاؤ گھیراؤ سے قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔ اس عدم استحکام اور روز و شب ایک نئے تماشا نے اقوام عالم میں ہمیں مذاق کا نشانہ بنا رکھا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں باہمی احترام اور عزت و وقار کا جوہر تو باقی رہا نہیں ، اُلٹا ان کے وہ لیڈر جو مخالفین کو گالیاں دیں ، بے عزتی کریں تو وہی اپنی پارٹی کے سب سے زیادہ وفا دار سمجھے جاتے ہیں ۔یہ سیاست نہیں بلکہ یہ دھینگا مشتی صرف ذاتی اقتدار کے گرد گھوم رہی ہے ۔ مَیں نے اپنے کالموں میں متعدد بار لکھا کہ ہمارے مُلک میں جمہوریت صرف ایک اسلوب زیست ہی نہیں بلکہ برسوں سے جاری نا انصافیوں کے بتدریج خاتمے کی ایک پر امن صورت ہے ۔یہ محض کسی فرد یا جماعت سے اختلاف رائے رکھنے پر مُلک اور آئین سے غداری کا نام نہیں ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں نظریہ اور جمہوری اقدار کو منظم طریقہ سے بے معنی اور بے مصرف قراردے کر ہماری نسل کو اس سے بے تعلق کر دیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ صورتحال ہے کہ جس سے عوامی اُمنگوں کے مخالف زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ اسی لیے ہماری قومی سیاست میں کئی تجربات کیے گئے ۔ کبھی کسی بیو روکریٹ کی سر پرستی ہوئی ، کبھی کسی جاگیردار اور صنعت کار کا انتخاب کیا گیا ، کبھی کھیل کے میدان سے کسی کھلاڑی کو پکڑ لائے تو کبھی فلمی دُنیا سے کسی فنکار یا فنکارہ پر محنت کی گئی ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس جوڑ توڑ میں سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئیں ۔ عوامی جذبات بھڑکانے اور ان کی پذیرائی حاصل کرنے کو ہر بار ایک نیا بیانیہ تراشا گیا، عوام کو ذاتی خواہشات کااسیر بنانے کیلئے بلند بانگ دعوے کئے جاتے رہے اور یوں سیاست کے نام پر ذاتی مقاصد پورے کیے جاتے رہے ہیں ۔ سیاسی تاریخ کے ان واقعات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں کہ آج کل ایک جماعت کے زیر عتاب آنے اور خوف و ہراس کی تاب نہ لانے پر ان کے کئی رہنما اور منتخب ارکان اسمبلی پارٹی چھوڑ کر نہ صرف اپنی پہچان کرا رہے بلکہ مثال بن کر سیاسی تاریخ کو دہرا رہے ہیں ۔ یہ وہ عناصر ہیں کہ جن کا کوئی نظریہ نہیں اور وہ ایک ایسی جماعت سے الگ ہوئے کہ جو جمہوری فکر یا کسی نظرئیے کی بنیاد پر وجود میں نہیں آئی تھی ۔گذشتہ تین دہائیوں میں خصوصی طور پر پورے مُلک میںان عناصر کی ایسی کھیپ تیار کی گئی ہے جو اپنے اپنے علاقے میں لوگوں کو نوکریاں دینے ، حکومتی فنڈ سے مقامی ترقیاتی کام کرنے اور سرکاری دفاتر میں حکومت کی پشت پناہی سے اپنا اثر رسوخ دکھانے پر ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ مُلک کے ہر خطے میں چند مخصوص خاندانوں کی عملداری ہے جہاں ان کا سکہ چلتا ہے۔یہ ہمیشہ ہر حکومت کے حمایتی اور وفادار چلے آ رہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں پہلے ان کے در پہ دستک دیتی ہیں اور یہ خود بھی ایسے مرغ بادِ نما ہیں جو ہواؤں کا رخ دیکھ کر اُڑان بھرتے ہیں ۔ مقتدر حلقوں کی یہی وہ طاقت ہے جو اشرافیہ کے روپ میں من پسند وزارتی کرسیوں پر بیٹھ کر ریاست کے اہم فیصلے اپنی منشا کے مطابق روبعمل لاتے ہیں ۔ ان کی دلچسپی محض انتخابی سیاست میں ہوتی ہے اور ہمارے ہاں ہر انتخاب پہلے دن سے ہی متنازعہ رہا ہے ۔ یوں دھاندلی کی آڑ میں مرتب نتائج فیصلہ کرنے والوں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں کہ کون اسمبلی میں جائے گا اور کسے باہر رکھنا ہو گا ۔ تب کسی پارٹی سے کہیں زیادہ انہی عناصر کا کردار اہم رہتا ہے ۔
ہر انتخاب سے قبل ایک ایسا ماحول بھی بنا دیا جاتا ہے کہ ایک خاص جماعت ہر لحاظ سے مقبول و قبول ہوتی ہے جبکہ دیگر نا منظور جماعتیں بددیانتی اور کرپشن کے داغ دھونے پر مجبور کی جاتی ہیں ۔ رائے عامہ ، عوامی پذیرائی اور انتخابی جیت کا یقین ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے ۔ یوں ہٹائے اور گرائے جانے کا عمل جو قیام پاکستان سے شروع ہوا تھا ، وہ آج بھی جاری ہے ۔ ہاں ہر مرتبہ اس کا اپنا انداز اور طریقہ کار ہوتا ہے جسے میڈیا اور مسلسل پراپیگنڈا کے ذریعے سچ سمجھا جانے لگتا ہے ۔ جمہوری نظام میں اقتدار کی منتقلی عوامی رائے کا احترام ہوا کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ عمل بڑا مضحکہ خیز ہوتا ہے کیونکہ ہم اقتدار بچانے اور چھیننے کی راویت کے عادی ہو چکے ہیں ۔ یہ سب غیر جمہوری نظام ، غیر نظریاتی سیاست اور اہل سیاست کے طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ یہاں نسل در نسل ذہن سازی نہ ہو سکی ۔ اب تو معاشی تباہی ، بے روزگاری اور بد امنی نے جہاں سب کو مشکل میں ڈال رکھا ہے وہاں نوجوان ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہے ۔ ظلم تو یہ ہے کہ اس مایوس اور ناراض نوجوان نسل کو جھوٹی آس سے بہلا کر انتخابی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔ نظریات پر مفادات حاوی ہو گئے ، شخصیت پرستی کو فروغ ملا اور ووٹ گدی نشینی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ۔ یہاں ووٹ کسی فکر کے تحت نہیں بلکہ کاروباری سوچ ، مذہبی و نسلی جھکاؤ اور وراثت میں پلنے والی سیاست سے متاثر ہو کر دیاجاتا ہے ۔ ہم روشن خیالی ، جمہوریت پسندی اور وسیع النظری کے باہمی اشتراک سے کسی فکری و نظریاتی تحریک کو عملی کاوش سے ہمکنار کرنے میں ناکام چلے آ رہیں ہیں ۔عوامی فلاح ، مساوات ، معاشی عدل ، خیر اور ترقی پسند نقطہ نظر کا تقاضا ہے کہ جمہوریت کا راستہ اپنا یا جائے۔ اس بار انتخا بات میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ آزاد اُ میدواروں کی اپنے علاقہ میں اہمیت ہو گی کہ تمام جماعتیں اپنی مقبولیت کھو چکی ہیں ۔ یہ ہماری قومی سیاست کا نقصان ہے ، جمہوری نظام سے دوری ہے اور کسی نظریہ کی بجائے اقتدار کے پجاری پھر قوم کے سرخیل بنیں گے ۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو