کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا

فاضل چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ان ریمارکس کی حقانیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ ”14مئی کے فیصلے پرعملدرآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا ہے”۔ لمحہ موجود میں تاریخ کیا کیا کہتی ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں یقینا یہ ایک الگ بحث ہوسکتی ہے ‘ اصولی طور پر تو چیف جسٹس کے ریمارکس کو آئینی تقاضوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہئے (تھا) کیونکہ انتخابات بقول ان کے قومی مسئلہ تھا اور رہے گا ‘ تاہم ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ ہر چیز جبر اورتشدد سے نہیں ہوسکتی چیف جسٹس نے یہ ریمارکس گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نظر ثانی قانون کے خلاف دائر درخواستوں اور پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کو ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کونوٹس جاری کر دیئے جبکہ سماعت تیرہ جون تک ملتوی کر دی ‘ فاضل چیف جسٹس نے جو ریمارکس اس موقع پر دیئے محولہ بالا الفاظ کو ان ریمارکس کا نچوڑ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ‘ ریمارکس تو انہوں نے اور بھی دیئے ہیں جن پر آگے چل کر اگر ضرورت پڑی توبات بھی ہوسکتی ہے اور ان کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے ‘ تاہم ان کلیدی ریمارکس کے بعد کچھ سوال ضرور اٹھتے دکھائی دے رہے ہیں ‘ اور وہ سوال نہ صرف قانونی حلقے اٹھارہے ہیں بلکہ سیاسی تجزیہ نگار بھی پنجاب میں اسمبلی توڑے جانے کے بعد ایسے ہی سوال زیر بحث لا کر مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں۔ ان سوالات کو مختصراً اور اپنی فہم کے مطابق جتنا ہم سمجھ سکے ہیں آپ کے سامنے رکھتے ہیں ‘ چیف جسٹس کی سربراہی میں پنجاب میں دوبارہ انتخابات کے حوالے سے فاضل عدالت نے از خود نوٹس کے تحت(اپنے دو ساتھی ججز کی توجہ دلانے پر) جس طرح ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران مبینہ طور پر بغیر کسی جواز کے اٹھایا ‘ وہ اپنی جگہ خود ایک سوالیہ نشان ہے ابتداء میں بنچ کے ارکان کی تعداد کتنی تھی اور بالآخر کم ہوتے ہوتے یا بعض ججز کو ”خارج” کرتے ہوئے بالآخر”ہم خیال” تین ججوں تک سلسلہ محدود کر دیاگیا جبکہ ججوں کی تعداد کم ہوتے ہوئے جب سات جج رہ گئے تو تب دو ججز نے جو ریمارکس دیئے اس کے بعد فیصلہ چار اور تین کا رہ گیا تھا ‘ ان میں سے دو ججوں کو اختلاف کی بنیاد پر بغیر کسی جواز کے ہٹا دیا گیا تو پانچ کے بنچ میں جو فیصلہ سامنے آیا اسے تین دو کا قراردے کر ”مسلط” کرنے کی کوشش کی گئی اور یہیں سے معاملہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان اختلافی رخ پر چلا گیا’اس دوران دونوں جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ‘ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ واقعات بھی اب تاریخ کے اوراق میں درج ہو چکے ہیں مختصراً یہ کہ سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے حوالے سے دھمکی آمیز صورتحال جنم لیتی رہی تو پارلیمنٹ کی جانب سے توہین پارلیمنٹ کا بیانیہ شد ومد سے سامنے آتا رہا ‘ اس دوران میں کچھ آڈیو لیکس نے بہت تہلکہ مچایا ‘ جو تادم تحریر رکنے کا نام نہیں لے رہا اور صورتحال بالآخر کیا ہوگی ابھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ تاہم جہاں تک عدلیہ کی جانب سے توہین عدالت اور پارلیمنٹ کی جانب سے توہین پارلیمنٹ کے بیانیوں کا تعلق ہے تو اس پر نظیر صدیقی کے الفاظ میں یہ تبصرہ کیا جائے توشاید غلط نہ ہو کہ
ہے فیصلہ خود باعث توہین عدالت
یہ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا
بات ہورہی تھی پنجاب میں انتخابات کے لئے (آئین کے مطابق) تاریخ دینے کی ‘ تو فیصلہ اپنی جگہ درست سہی ‘ لیکن صرف پنجاب میں دوبارہ انتخابات کے لئے تاریخ مقرر کرنے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی بالکل ویسی ہی صورتحال ہونے کے تناظر میں (دونوں صوبوں میں اسمبلیاں توڑی گئی ہیں) کیا وہاں دوبارہ انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے یا تھا؟ ظاہر ہے ایک صوبے میں انتخابات اور دوسرے میں اس کے آئینی تقاضے پر مکمل چپ سادھ لینا کیا یہ آئین کی خلاف ورزی کے زمرے میں شمار نہیں کیا جائے گا؟یعنی بقول عباس تابش
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
تواپنے انداز میں چپ ہے میں اپنے انداز میں چپ
اس ضمن میں تحریک انصاف کو فاضل عدالت عظمیٰ کی جانب سے مبینہ طور پر جو سہولتیں تسلسل کے ساتھ دی جاتی رہی ہیں ‘ عدالتوں میں حاضری سے استثنیٰ ‘ ضمانتوں کے جمعہ بازار کی کارستانیاں ‘کچھ ججز کے (نامناسب؟) ریمارکس ‘ جنہیں عوامی سطح پر بھی حیرت سے دیکھااور محسو س کیاگیا’ بھی کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث ہے ‘ سب سے اہم تین رکنی(ہم خیال؟) ججز کے بنچ تک محدود ہونے سے پہلے جسٹس اطہر من اللہ نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اسمبلیاں توڑنے کاجوازکیا تھا اور آئین کے تحت اسے کس نظر سے دیکھا جانا چاہئے پہلے اس کاتعین ضروری ہے ‘ اور یہ بھی ایک ایسا کلیدی سوال ہے کہ جس کا جواب آنے تک دوبارہ انتخابات کی تاریخ دینے کا کیا جواز بنتا ہے ‘مگر خود کو تین رکنی بنچ تک محدود کرنے اور اس پر حکومت کے 3/4 کے فیصلے کے ماننے جبکہ تین رکنی بنچ کے کسی بھی فیصلے کو درست قرار نہ دینے کے بیانئے کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے مبینہ ہٹ دھرمی کو کیا سمجھا جائے ‘ کیا یہ تاریخ کا حصہ قرار نہیں دیاجائے گا؟ اسمبلیوں کو بلا جواز توڑنے کو اگرایک جماعت کی جانب سے ”سیاسی بلیک میلنگ” قراردیا جائے تو کیایہ بات غلط ہوگی؟ جبکہ اگر دو صوبوں میں دوبارہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کرا دیئے جاتے تو اس سے ملکی پارلیمانی سیاست میں جو کجی پیدا ہوتی وہ آنے والی صدیوں تک برقرار رہتی ‘ یعنی
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریامی روددیوار کج
اس سے ملکی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے(کم ازکم) بڑے صوبے کی”سیاسی غلامی” کاشکار ہو جاتی اور اس صوبے کی ”حکمرانی” بالکل ویسے یہ قائم ہوجاتی جیسے کہ قیام پاکستان کے بعد ایک سازش کے تحت ون یونٹ کے قیام سے مغربی پاکستان میں عملی طور پر پنجاب کا تسلط قائم کردیا گیاتھا ‘ اس لئے جو سوال جسٹس اطہر من اللہ نے اٹھایا تھا اس کو سنجیدگی سے بحث کاموضوع بنا لینا عدالت کی ذمہ داری تھی ‘ مگر اس وقت تو دو صوبوں(عملاً صرف پنجاب) میں انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لئے مبینہ طور پر عدلیہ اور ایک اور ادارے کے اندر سے سہولت کاری جس طرح سے کی جارہی تھی ‘ اب وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ‘ سب کچھ کھل کر سامنے آچکا ہے ‘ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے بنا کسی جواز کے کسی کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے پر پابندی لگا دی جائے ‘ تاکہ سیاسی بلیک میلنگ کی راہ بند ہوسکے اسمبلیاں توڑنے کے لئے جب تک معقول جواز فراہم نہ کیا جائے تب تک متعلقہ صوبے کے گورنر اور قومی اسمبلی کی صورت میں صدرمملکت کوایسے احکامات ماننے کا پابند کرنے کی آئینی شقوں کو مشروط کردیا جائے ۔اس کے ساتھ کسی بھی شخص کوایک سے زیادہ نشستوں پربہ یک وقت انتخابات میں بطور امیدوار پابندی عائد کی جائے جبکہ دونوں نشستوں پر کامیاب ہونے کی صورت میں کسی بھی ایک نشست کو خالی کرنے کی صورت میں وہاں ضمنی انتخابات کے اخراجات بھی اسی سے وصول کئے جائیں کیونکہ جس طرح عمران خان نے ماضی قریب میں آٹھ حلقوں میں ضمنی انتخابات لڑے اور صرف ایک ہی نشست ہی ان کے پاس رہ سکتی تھی باقی کے نشستوں پربار دیگر ضمنی انتخابات پراٹھنے والے اخراجات قومی خزانے سے کیوں ادا کئے جائیں ہم ایک غریب قوم ہیں اور سیاسی رہنمائوں کے اس قسم کے چونچلے ہماری معیشت برداشت نہیں کر سکتی۔بقول مظہر حسین سید
اس عدالت میں بھی دی میں نے صفائی اپنی
منصفوں کو بھی سنائی نہیں دیتا تھا جہاں

مزید پڑھیں:  ہند چین کشیدگی