پی ٹی آئی کی کرچیاں یا سیاست کے بڑے بُرج ؟

ملک میں جس کنگز پارٹی کے ظہور کے آثار تھے وہ آخر کار منصہ شہود پر آگئی ۔علیم خان کی رہائش گاہ پر جہانگیر ترین کی سرپرستی میں پی ٹی آئی سے الگ ہونے والوںکا عشائیہ ان اُبھرتے ہوئے خدوخال کا اشارہ تھا۔جس کے ساتھ ہی استحکام پاکستان پارٹی کے عنوان سے کنگز پارٹی کا نام بھی سامنے آگیا۔اب اس سیاسی جماعت کے خدوخال وقت کے ساتھ ساتھ اُبھرتے جا ئیں گے ۔ یہ حقیقت میں پی ٹی آئی کے وہ الیکٹبلز ہیں جن کے بارے میں پی ڈی ایم ساڑھے تین سال تک گلہ گزار رہی کہ ملک کی ہئیت مقتدرہ نے اپنے سیاسی اثاثے کہلوانے والے الیکٹبلز پی ٹی آئی کی ٹوکری میں ڈال کر ان کے اقتدار کی راہ ہموار کی ۔پی ڈی ایم نے ہیئت مقتدرہ سے ہمیشہ یہ مطالبہ کیا کہ وہ ایک سیٹی بجاکر اپنے ان اثاثوں کو عمران خان کی ٹوکری سے چھلانگ مار باہر آنے پر آمادہ کرے ۔بعد میں یہی ہوا سیٹی بجتے ہی اثاثوں کا ایک حصہ پی ٹی آئی سے الگ ہو گیا جس کے نتیجے میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یقینی ہو کر رہ گئی ۔اب انہی اثاثوں کی دوسری کھیپ عمران خان کو چھوڑ کر جارہی ہے مگر ملک میں قائم سیاسی ماحول اور فضا ء میں ان بھاری بھرم شخصیات اور الیکٹبلز کا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں براہ راست جانا خاصا مشکل ہے کیونکہ رائے عامہ کسی اور ہی رخ جارہی ہے ۔اس لئے معقول اور محفوظ راستہ یہی تھا کہ پی ٹی آئی کے الیکٹبلز اپنے لئے تیسرا راستہ منتخب کرتے ۔جہانگیر ترین انہیں اونر شپ دینے کے لئے گھات لگائے بیٹھے تھے اور یوں ایک ایک کرکے پنچھی ان کے دانۂ دام کی طرف لپکتا چلا گیا اور ا ب ان کے نئے آشیاں کا نام استحکام پاکستان ہے ۔ استحکام پاکستان پارٹی نے پی ٹی آئی سے زیادہ پی ڈی ایم کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں ۔پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنے طور پر مستقبل کا منظر نامہ ذہن میں سجائے اور بسائے بیٹھی ہیں ۔موجودہ حالات میں یہ جماعتیں تنہا کوئی بڑی کارکردگی نہیں دکھا سکتیں ان کی نظریں پی ٹی آئی کے بکھرے ہوئے وجود کی انہی کرچیوں پر مرکوز تھیں مگر یہ ساری کرچیاں جہانگیر ترین کے دامن میں سجنے سے پی ڈی ایم کے لئے ایک مشکل کھڑی ہوگئی ہے ۔یہ وہی الیکٹبلز تھے جن پر دونوں بڑی جماعتوں کی نظریں تھیں ۔یہی الیکٹبلز ان جماعتوں کی کامیابی کی نفسیاتی فضا ء بنا سکتے تھے ۔عمران خان کی مقبولیت کی آندھی کے آگے جہانگیر ترین نے اپنا چراغ تو رکھ لیا ہے اور عمران خان نے بھی جانے والوں کو گڈ لک کہہ کر گھبرانے کی گیند پی ڈی ایم کی کورٹ میں ڈالدی ہے ۔عمران خان کو تو اندازہ ہے ان کے ساتھ تو جو ہونا ہے ہو کر رہ گا مگر ا ب طاقت کی شراکت کا مشکل مرحلہ اور اقتدار کا کیک ان کے مخالفین کے آگے سجنے والا ہے ۔ابھی تو کیک سجا ہی نہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین کے امیدواروں کے معاملے پر دو بڑی حکومتی جماعتوں میں رسہ کشی شروع ہوگئی ہے ۔ذکاء اشرف پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں تو نجم سیٹھی مسلم لیگ ن کی پسند ہیں اور ان ناموں پر اتحادیوں میں ایک کھینچاتانی چل رہی ہے ۔ڈیڑھ سال کی مخلوط حکومت تو عمران خان کے مشترکہ خطرے اور ہدف کے جوش میں جیسے تیسے گزر گئے مگر آگے جب یہ مشترکہ خطرہ نہیں ہوگا تو منظر کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔استحکام پاکستان پارٹی کاقیام کوئی نیا اور آخری تجربہ نہیں ۔ری پبلکن پارٹی ،مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم حقیقی ،پاک سرزمین پیپلزپارٹی پیٹریاٹ سمیت پاکستان کی تاریخ نظریہ ضرورت کے تحت ہونے والے ایسے سیاسی تجربات سے بھری پڑی ہے اور اسی لئے تو پاکستان کو دائرے کا مسافر کہا جانے لگا ہے ۔آٹھ دس سال کے بعد کہانی واپس اسی موڑ پر آجاتی ہے جہاں سے پہلے گزر ہو چکا ہوتا ہے ۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں ایک نئی نسل تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے ۔جدید وسائل اور ذرائع ابلاغ اور ابلاغ کے نئے طور طریقوں سے لیس یہ نسل پاکستان کو مغرب ومشرق اور اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے آئینے میں دیکھ رہی ہے ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور پاکستان معیشت کی دلدل میں دھنس کر رہ گیا ہے ۔اس نسل کی خواہشات اور مطالبات کو بیانیوں سے عملی اقدامات سے پورا کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں موبائل کی صورت میں سچ اور جھوٹ کی چھنی ہے جس سے حقیقت چھانی جاتی ہے۔نئی نسل کے سوالوں کے جواب بیانیوں سے نہیں دئیے جاسکتے کیونکہ پاکستان کی حالت زار تو کھلی کتاب کی طرح ان کے سامنے ہے اور پاکستان کی اس تصویر میں اس نسل کو اپنا مستقبل قطعی طور پر اچھا نظر نہیں آتا۔اس حقیقت کا اداراک کئے بغیر پاکستان کے ہمہ جہتی بحرانوں کو کم نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان کا استحکام کسی پارٹی کے قیام سے ممکن نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام کی ضمانت اس کے سیاسی اور معاشی استحکام میں پنہاں ہے ۔پنجاب کے الیکٹبلز کا حال سندھ کے الیکٹبلز سے مختلف ہے ۔سندھ کے الیکٹبلز کی گرفت اپنے ووٹر پر مضبوط ہے کیونکہ وہاں عام ووٹر دبا ہوا ہے ۔پنجاب کے الیکٹبلز کا ووٹر ان کو آخری آپشن نہیں سمجھتا ۔یہاں ووٹر پارٹی کے نام پر ایک الیکٹبل کو چھوڑ کو یا رد کرکے دوسرے الیکٹبل کو منتخب کرنے کا تجربہ اور ماضی رکھتا ہے ۔عین ممکن ہے کہ نوجوان ہر قسم کے الیکٹبل سے سرکش ہو کر اپنا الگ راستہ اپنا لیں اور یہ ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔جنرل ضیاء الحق کے الیکٹبلز میں انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں نئے لوگوں اور چہروں سے بری طرح شکست کھا گئے تھے ۔ان میں جنرل ضیا ء الحق کے اوپننگ بیٹسمین کہلانے والے وزیر اطلاعات ونشریات راجہ ظفرالحق،وزیر دفاع میرعلی احمد تالپور ایک اور وزیر ارباب نیاز ،غلام دستگیر خان ،راجہ سکندر زمان جیسے طاقتور الیکٹبل عام نوجوانوں کے ہاتھوں ہار گئے تھے ۔اس وقت میڈیا میں الیکٹبلز کی شکست کے لئے بڑے بُرج الٹ جانے کی اصطلاح عام ہوئی تھی ۔پاکستان کی سیاست میں بڑے بُرج اُلٹنے کی یہ تاریخ بھی موجود ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھیوں میں تو ابھی تک کوئی ناقابل شکست اور بھاری بُرج بھی نظر نہیں آتا ۔یہ سب پی ٹی آئی کی فیکٹری سے بنے اور متعارف ہوئے لوگ ہیں ۔پہلے مرحلے پر تو انہیں شناخت کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اس کے بعد انہیں ووٹ بینک کو ڈھونڈنا یا جوڑنا پڑے گا ۔استحکام پاکستان پارٹی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا کیک آدھا تو کرسکتی مگر سرِدست خود ایک بڑی طاقت بن کر نہیں اُبھرسکتی ۔ ابھی اسے قدم قدم پر ایک ناراض بلکہ بگڑے ہوئے ووٹر کا سامنا کرنا ہے ۔اس لئے پاکستان کو حقیقی استحکام دینے کے لئے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت اور عوام کے دل میں تراز و ہوجانے والے تیر کو نکالنے کی ضرورت ہے اور اس کا واحد طریقہ انتخابات ہیں۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری