ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی

وطن عزیز میں سبز باغ دکھانے اور عوام کی جانب سے غیر متوقع چیزوں سے بھی امیدیں وابستہ کرنے کی ریت پرانی ہے ملک میں روس سے سستے تیل کی خریداری اور تیل سستا ہونے کے حوالے سے بھی محولہ امور کا اعادہ کیا گیا حکومت گزشتہ کچھ عرصے سے روس سے خام تیل کی پہلی کھیپ آنے کا دعوی کر رہی ہے لیکن ابھی تک روسی تیل بردار جہاز پاکستان نہیں پہنچ سکے ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ پاکستان میں توانائی کے شعبے کا زیادہ تر دار و مدار درآمد ہو کر آنے والے ایندھن پر ہے جبکہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیت میں ابھی تک کافی زیادہ تصور کی جا رہی ہیں۔ روس سے خام تیل آنے کی خبروں کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید آئندہ دنوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑی کمی آجائے لیکن ابھی تک اس بارے میں حکومت کی کوئی واضح حکمت عملی یا پالیسی سامنے نہیں آئی۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ عمان سے تیل کا پہلا جہاز جون کے دوسرے جبکہ دوسرا جہاز تیسرے یا چوتھے ہفتے میں پاکستان پہنچے گا۔ روس سے تیل پہنچنے میں مسلسل تاخیر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ سوال بھی زیرِ گردش ہے کہ ایک لاکھ ٹن خام تیل پاکستان آنے سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کتنی کمی متوقع ہے؟ اس سے پاکستان کی مجموعی معاشی حالت میں کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی آئل ریفائنری کے پاس اس خام تیل کو پراسس کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں؟معاشی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق روسی تیل تو پہنچنے والا ہے لیکن اس سے ابتدائی طور پر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔شروع میں یہ توقع نہیں باندھی جا سکتی کہ فورا ہی پاکستان میں تیل سستا ہو جائے گا۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کے مجموعی درآمدی بل میں روسی خام تیل کا شیئر کتنا رکھا جائے گا۔ اگر اس کے لیے زیادہ حصہ رکھا گیا تو پیٹرولیم مصنوعات سستی ہو سکتی ہیں۔یہ طویل المدتی معاہدہ ہے یا پھر ایک دو مرتبہ کی خریداری؟ ابھی اس کی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔ پاکستان کی تیل کی ضروریات اور آئندہ دنوں کے درآمدی بِل سے اندازہ ہو گا کہ حکومت کیا چاہتی ہے۔روسی خام تیل تو پاکستان آ رہا ہے لیکن یہ پہلو ابھی تحقیق طلب ہے کہ آیا پاکستان میں موجود ریفائنریاں روسی خام تیل کو پراسس کر سکتی ہیں یا نہیں۔علاوہ ازیں بھی بہت سے سوالات اور مسائل موجود ہیں ایسے میں اس سے بڑے توقعات کی عدم وابستگی ہی حقیقت پسندانہ امر ہو گا حکومت کو ان سوالات کاجواب دینے کے ساتھ عملی طور پر اسے منفع بنانے کی عملی تگ و دو کرنی چاہئے تاکہ یہ ایک ناکام تجربہ ثابت نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟