سیاسی جماعتوں کی تعداد میں ایک اورکا اضافہ

کافی تگ ودو کے بعد سینئر سیاستدان جہانگیر ترین نے نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ9مئی کے واقعات نے ملکی سیاست کو بدل دیا، کوئی بھی معاشرہ ایسے واقعات برداشت نہیں کر سکتا، ہمارے اکٹھے ہونے کا مقصد ملک کو دلدل سے نکالنا ہے۔ پریس کانفرنس میںتحریک انصاف سے حال یہ میں راہیں جدا کرنے والے علی زیدی، عمران اسماعیل، عامر کیانی، سردار تنویر الیاس اور فردوس عاشق اعوان بھی شریک تھیں۔ایک معروف معاصر نے اس اعلان کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ اترے ہوئے چہروں اور افسردہ آنکھوں کے درمیان استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیااترے ہوئے چہرے، افسردہ آنکھیں، اور ہاتھ سے بار بار چہرہ چھپانے کی کوشش۔۔۔ یہ یقینا کسی خوشی کے موقع پر کی جانے والی حرکات نہیں لگتیں لیکن یہ سب کچھ لاہور کے ایک ہوٹل میں استحکام پاکستان پارٹی کے لانچ پر منعقدہ تقریب میں دیکھنے کو ملیں۔جہانگیر ترین کی جانب سے ایک علیحدہ سیاسی جماعت قائم کرنے کی بازگشت تو گذشتہ چند ہفتوں سے سننے کو مل رہی تھی لیکن گذشتہ رات پی ٹی آئی کے سابق رہنمائوں کی جہانگیر ترین کے ساتھ تصاویر، ان کی مجوزہ جماعت کا نام اور جھنڈے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا اور نیوز بلیٹنز کی زینت بننے لگیں۔نئی جماعت کے باضابطہ اعلان کے لیے پریس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ اس تقریب کے دوران پیش آنے والے مناظر خاصے غیر معمولی تھے اور جو تقریب ایک نئی پارٹی کے اعلان کے لیے منعقد کی گئی تھی اس میں ساری توجہ خاص طور پر فواد چوہدری کے اترے چہرے پر مرکوز رہی۔یقینا پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی سیاسی جماعتیں ٹوٹی ہیں اور کنگز پارٹیاں وجود میں آئی ہیں لیکن پی ٹی آئی کے سابق رہنمائوں کے چہرے کے تاثرات، تقریب سے پہلے اور اس کے دوران پیش آنے والے واقعات بظاہر یہی تاثر دے رہے تھے کہ شاید یہ سب کچھ جلدبازی میں کیا گیا ہے۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے زیرعتاب آنے پر ٹوٹ پھوٹ اور ان کی کوکھ سے نئی جماعتوں کامنصوبہ بند ظہورکوئی نئی بات نہیں ایم کیو ایم ‘ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ نون بطور خاص اس عمل سے گزر چکی ہیں سیاسی جماعتیں فطری طور پر شکست وریخت کاشکار بن کر نئی جماعتوں کوجنم دینے اور نظریاتی یا اصولی اختلاف پر علیحدگی کا عمل ہوتا تواس کی کامیابی و ناکامی سے قطع عوامی طور پرقبولیت کا بہرحال کچھ نہ کچھ امکان ہونا فطری امر ہوتا لیکن جہاں عوام اور پارٹی کارکنان پس پردہ ہاتھوں ‘ سازشوں ‘ دبائو اور مجبوریوں کا شکار بنا کر کسی نئی پارٹی کاظہور یا پھر کسی جماعت کو منصوبہ بندانتشار کا شکار دیکھے تو ان کی وفاداریاں ہی برقرار نہیں رہیں بلکہ عوامی ہمدردیاں بھی اس جماعت کے ساتھ ہوتی رہیں پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کو جس طرح توڑ کر نئی جماعت کا قیام کیاگیا چونکہ ماضی کے برعکس معاشرے اور سیاسی میدان میں لکیریں بڑی واضح گہری اور نفرت کی حد تک خلیج پائی جاتی ہے اس لئے عوامی ہمدردی کے حوالے سے کوئی اندازہ لگانا آسان نہیں لیکن تحریک انصاف کے سابق عہدیداروں اور رہنمائوں کوکم ازکم تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کی حمایت نہ ملنے کی باآسانی پیشگوئی کی جا سکتی ہے سوشل میڈیا پر ایک بڑا گہرا طنز یہ فقرہ زیرگردش ہے کہ رہنمائوں نے جماعت تو بنا لی مگر اب کارکنوں کا انتظار ہے اور یہی وہ مشکل ہے جس کا نوزائیدہ جماعت کوسامنا کرناپڑے گا فی الوقت کسی ایسے منشور کابھی اعلان نہیں کیاگیا جو کشش کاباعث ہو جس منشور اور پراپیگنڈے کے زور پر تحریک انصاف کو مقبول بنایاگیا اب اسطرح کے انتظام کاروں کے لئے بھی کوئی نیابت تراش کر اس کی طرف بلندوبانگ دعوئوں سے متوجہ کرنے کی سہولت بھی اس لئے نہیں رہی کہ وہ یہ کام تحریک انصاف کوآگے لانے کے دوران کرچکے ہیں جس سے نوجوانوں کو امید کی کرن نظر آئی اور ہر طبقہ فکر کے افراد متاثر ہوئے مگر اب ہرجانب مایوسی ہی نظرآتی ہے یہی وہ نکتہ ہے ۔کارکردگی اور توقعات دونوں میں ناکامی سے تحریک انصاف نے بھی عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا نوزائیدہ جماعت کی جانب سے اب اگر کوئی بلند و بانگ دعویٰ کیا جاتا ہے تواس پر یقین کرنے والے کم ہی ہوں گے ۔ جو سیاسی جماعتیں عوام کے دلوں میں جنم نہ لیں اور عوام ان کوقبول نہ کریں تو اس کا انجام بالاخر ناکامی ہی پر منتج ہوتا ہے بلاشبہ نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف مشکل حالات سے گزر رہی ہے مگر سیاسی میدان میں اب بھی ان کامقابلہ مشکل اور دشوارگزار امر ہے البتہ نوزائیدہ جماعت تحریک انصاف کے راہ کی رکاوٹ ضرور ثابت ہو سکتی ہے جس کے قیام کامقصد بھی شاید یہی ہو۔

مزید پڑھیں:  ہند چین کشیدگی