تحریک انصاف کے رفقا کی توجہ درکار ہے

چند نوانقلابی کچھ”باہرلے ملخ”بیٹھے دانشور اور سوشل میڈیا پر دستیاب انصافی جتھے کے ساتھ مولا جٹ برانڈ فلموں کے عاشق پوچھتے پھر رہے ہیں کہ تحریک انصاف سے 9مئی کے بعد نکلنے والے جہانگیر ترین کی پارٹی میں شامل ہوکر معصوم کیسے ہوگئے؟ ایسے ہی ایک سوال پر فقیر راحموں نے اپنے ایک دوست سے کہا ویسے ہی پارسا ہوئے جیسے یہ 2011 اور بعد کے برسوں میں چوروں ۔ سب سے بڑی بیماری اور دوسرے لوگوں کی پارٹیوں سے الگ ہوکر انصافی دھوبی گھاٹ آبپارہ شریف کے تالاب میں ڈبکی لگاکر چور سے سادھو ہوگئے تھے۔ یہی ہوا تھا نہ اس ملک میں 2011 سے 2018 تک فون کئے جاتے تھے۔ بچیوں کے کالج جانے کے اوقات بتائے جاتے تھے۔ فائلوں اور ویڈیوز کی دھمکیاں دی جاتی تھیں تب یہ سب کچھ ہلال تھا بلکہ دشمنوں کی وکٹیں اڑ رہی تھیں اب سیاپا کیوں۔ سکیورٹی سٹیٹ میں بنائی جا ڈھائی جا فیر بناکے ڈھائی جا کا فارمولا چلتا بلکہ اڑتا ہے۔ آئی جے آئی ایسے ہی بنا تھا (ن)لیگ بھی پھر تحریک انصاف۔ قبل ازیں ہم خیال گروپ جو آگے چل کر (ق)لیگ ہوا، ملت پارٹی، ایک نیشنل اتحاد بھی بنا تھا۔ صاف سیدھی بات ہے جب آپ نظریات کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے بھونپوں بن کر راضی بہ رضا رہیں گے تو کل آپ سے اچھا بھونپو مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔ دوسری بات سیاست میں اختلاف رائے ہوتا ہے ذاتی دشمنیاں نہیں۔ عمران خان نے سیاسی اختلافات کی جگہ نفرتوں کی فصل بوئی اب بیج فراہم کرنے اور کاشت کرنے والے دونوں فصل کاٹ رہے ہیں۔ اختلافات نفرت کے سیلاب کی طرح خاندانوں کو نگل گئے چار اور کی چند تلخ مثالیں ہیں لکھ اس لئے نہیں رہا کہ ان خاندانوں کے لئے مزید مسائل پیدا ہوں گے جن میں غمی خوشی کے تعلق، سیاسی نفرت کھاگئی۔ خود میں چند دن قبل اس تلخ و بھیانک تجربے سے گزرا ہوں۔ ایجنسیوں کی کرم فرمائی ہے کہ اس نے لوگوں کے دلوں میں ایسی نفرت بھردی ہے کہ عمران خان کی اندھی محبت میں گرفتار مخالفین کو منہ بھر بھر کے گالیاں دینے والے چند قریبی عزیزوں نے چھوٹے بھائی کی وفات پر اس لئے تعزیت گوارہ نہیں کی کہ میں عمران خان کا مخالف ہوں عرض کیا اس طرح کے درجنوں واقعات کا شاہد ہوں آدمی اپنی بات کرسکتا ہے سو کردی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پچھلے گیارہ بارہ برسوں کے دوران انصافیوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں اٹھا جس نے عصری شعور کے ساتھ کہا ہو کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے اس سے سماجی وحدت بکھرے گی خاندان ٹوٹ جائیں گے۔ اب ان دوستوں کو تنہائی اور مسائل پر رونا نہیں چاہیے کیونکہ تب انہیں سمجھانے کے لئے کچھ عرض کیا جاتا تھا تو منہ بھر کے موٹی سی گالی اچھالتے تھے یہ لوگ۔ ایک دو نہیں سینکڑوں بار ان سطور میں عرض کیا سیاستدان فرشتے نہیں مگر انہیں ہر گالی دینے کے شوق میں مبتلا گروہ جب تنہائی کا شکار ہوگا تو سر پیٹے گا لیکن دیر ہوچکی ہوگی۔ بار دیگر عرض ہے جب سکیورٹی سٹیٹ کے نغموں پر جنون بھرا رقص کرتے ہوئے یہ سوچیں گے ہم سب کو روند کر رکھ دیں گے تو تنہائی واجب ہے۔ بہرحال ان ساری باتوں، گھاتوں اور گھائوں کے باوجود جو ہورہاہے وہ درست نہیں۔ 9مئی کے واقعات کی ذمہ دار تحریک انصاف ہے لیکن کیا فقط تحریک انصاف اور عمران خان ذمہ دار ہیں؟ جی نہیں اس کے ذمہ دار پاشا، ظہیر اسلام، فیض حمید اور باجوہ کے ساتھ چند اور لوگ بھی ہیں۔ اس لئے تواتر کے ساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ جب تک ذاتی پارٹی بنانے کے شوقینوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ عمران خان کے حامی اس کے یوٹرنز پر بھی سبحان اللہ کہہ کر داد دیتے ہیں۔ اس نے کہا امریکہ نے میری حکومت ختم کی سب نے کہا امریکہ مردہ باد۔ ایک شخص ایسا نہیں تھا جس نے سوال کیا ہوا کہ جناب آپ کی حکومت میں کتنے وزیر مشیر معاون غیرملکی شہری تھے؟ ان سطور میں چند برس قبل لکھا تھا کہ عثمان بزدار کی صوبائی حکومت کے ترجمان شہباز گل امریکی شہریت کے حامل ہیں۔ کھانے کو آگئے محکمہ اطلاعات پنجاب کے ذمہ داران کے ساتھ آئی بی اور سپیشل برانچ والے۔ چھوڑیں ہم اور باتیں کرتے ہیں ۔ عمران خان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ورنہ بہت وقت تھا ان کے پاس کہ وہ تجزیہ کرتے کہ غلطی اور غلطیاں کہاں کہاں ہوئیں۔ ان کے تکبر اڑیل پن میں ناگزیر ہوں، میرے علاوہ کوئی چوائس ہی نہیں، میں سب جانتا ہوں کے خبطِ عظمت نے انہیں جہاں لاکھڑا کیا وہ اس پر بھی سوچنے کو تیار نہیں۔ جن انقلابیوں کو انقلاب کا ہڑ چین نہیں لینے دے رہا وہی بتادیں کہ عمران اوران کی گالم گلوچ بریگیڈ کا ساتھ کیوں دیا جائے؟ کیا وہ ماضی کی غلطیوں اور گالم گلوچ کی سیاست سے سبق سیکھنے کو تیار ہیں؟ بالکل بھی نہیں ان کا بس چلے تو اپنے ہر مخالف کو حرف غلط کی طرح مٹادیں یہی زہر ان میں بھرا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس گروہ کا حالیہ موقف کسی سیاسی اصول پر نہیں بلکہ اس پر ہے کہ تم ہمیں کہتے تھے یہ چور ڈاکو وطن فروش ہیں ہم تمہارا لشکر تھے پھر راستے الگ کیوں کئے۔ آج اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان واپس گود لے لے تو ساون کے سارے اندھوں کو ہر طرف ہریالی دکھائی دینے لگے گی ۔ بہت احترام کے ساتھ عرض کروں انصافیوں اور عمران خان کو غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست میں دوسرے فریق بھی ہوتے ہیں یہی سیاسی حقیقت ہے۔ گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار فیریوالی سوچ درست تھی ہے نہ ہوگی۔ میں ان دوستوں سے متفق نہیں جو کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا وقت تمام ہوا۔ میری رائے میں وقت تمام نہیں ہوا، تحریک انصاف کو سیاسی اطوار اپنانا ہوں گے۔ سیاسی مخالفین کو گالی دینے اور چور کہنے سے قبل اپنے گریبان میں بھی دیکھنا ہوگا۔ کرپشن کے جس طرح کے مقدمات عمران اس کی اہلیہ بہنوں اور ساتھیوں کے خلاف سامنے آئے ہیں ایسے ہی یا اس سے کچھ زیادہ دوسروں کے خلاف بھی ہیں۔ چلیں اگر ہم یہ مان لیں کہ عمران وغیرہ کے خلاف کرپشن کے مقدمات سیاسی انتقام کا حصہ ہیں تو جو دوسروں کے خلاف مقدمات مختلف ادوار میں بنے وہ الہامی ہدایت پر تو نہیں بنے نہ وہ بھی ایک دوسرے کی حکومت میں ایک دوسرے کے خلاف درج ہوئے۔ اس لئے غلط ہیں تو سارے مقدمات غلط درست ہیں تو تمام درست ہوں گے۔ مقدمات اور بندے توڑنے سے پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں۔ اندرون سندھ والی پیپلزپارٹی گزشتہ روز باغ آزاد کشمیر میں ریاستی اسمبلی کا ضمنی انتخاب جیت گئی۔ جنرل ضیاء سے پیپلزپارٹی اور مشرف سے پی پی اور (ن)لیگ ختم نہیں ہوئے۔ پاشا، ظہیر اسلام، فیض حمید اور باجوہ مل کر(ن) لیگ اور پی پی ختم نہیں کرپائے۔ اسی طرح کے ہتھکنڈوں سے پی ٹی آئی بھی ختم نہیں ہوگی۔ اپر لوئر کلاس، لوئر مڈل اور مڈل کلاس کی اس پارٹی کو سیاسی عمل میں رہنا چاہیے یہ لوگ اسی ملک کے شہری ہیں البتہ ان طبقات کو ٹھنڈے دل سے پچھلے گیارہ بارہ برسوں کی اس سیاست کا تجزیہ کرنا ہوگا جو ایجنسیوں کی سرپرستی میں ہوئی۔ آگے بڑھنے کے لئے سیاسی رویہ اپنانا ہوگا برداشت کریں گے تو برداشت کئے جائیں گے۔ یہی سیاسی عمل کا اصول ہے۔ فیصلہ عمران خان اور ان کے رفقا کو کرنا ہے کہ وہ اپنی سیاسی اٹھان کو فراہم کردہ رزق پر جینا چاہتے ہیں یا سیاسی اقدار اور عصری شعور کے ساتھ؟ میرے خیال میں مناسب یہی ہوگا کہ سیاسی اقدار اور عصری شعور کے ساتھ جینے اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جائے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو