ڈالر کی تجارت پر قدغن

حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے ساتھ اہم قوانین متعارف کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ڈالر اور دیگر کرنسی کی ذخیرہ اندوزی پر سزا دینے کیلئے قانون سازی کی جائے گی جس کے تحت غیر ملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی پرقید اور جرمانے کی سزا دی جا سکے گی نئے قانون کا اطلاق غیر ملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے اداروں اور افراد پر ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر ملکی کرنسی لانے کی حد بڑھانے کے لئے بھی قوانین متعارف کرائے جارہے ہیں جسکے تحت بیرون ملک سے آنے والے ایک سال کے دوران ایک لاکھ ڈالر تک ساتھ لاسکیں گے، ملک میں ایک لاکھ ڈالر تک لانے والوں سے آمدن کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ اس وقت ذریعہ آمدن ظاہر کئے بغیر 50 لاکھ روپے مالیت کی کرنسی پاکستان لانے کی اجازت ہے۔ڈالر کو جس طرح کرنسی کی بجائے تجارتی مصنوعات کی طرح کی”ایک چیز” بنا کر جس طرح اس کی منافع بخش تجارت ہو رہی تھی اس سے روپے کی قدر میں آئے روز گراوٹ آرہی تھی جس کے نتیجے میں مہنگائی میں روزبروز اضافہ ہوتا آیا ہے اس کی روک تھام کے لئے جس قدر سخت اقدامات کی ضرورت ہو اس سے دریغ نہیں کیا جانا چاہئے لوگوں کو اب سختی سے یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ڈالر خریدو فروخت کی چیز نہیں بلکہ قابل تبادلہ کرنسی ہے جس سے غیر ملکی ادائیگیاں ہونے سے لے کر بین الاقوامی تجارت کا دارومدار ہے اور اس کی قدر میں اضافہ ملک کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے اس کے اعادے کی ضرورت نہیں بنا بریں اس عمل کی روک تھام کے لئے حکومتی اقدامات کو جہاں تحسین کی نظروں سے دیکھنے کی ضرورت ہے وہاں اہل وطن کو بھی اس امر کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کی ”ڈالر کی تجارت” سے ملک کو مجموعی طور پر کس مشکلات کا سامنا ہے اور عوام اس سے کس قدر متاثر ہوتے ہیں اس ضمن میں اگر کوئی عالم دین مفتی سے فتویٰ لیا جائے کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اس کے مہلک ہونے کے باعث اور عام لوگوں و ملک و قوم کو متاثر کرنے کے باعث اس کی شرعی حیثیت کیا ہے تو مناسب ہو گاہمارے تئیں صرف قوانین متعارف کرانا کافی نہ ہو گا اس پر پوری طرح عملدرآمد بھی یقینی بنا کر قوانین کو موثر بنانا ہو گا تاکہ اس سلسلے کی حوصلہ شکنی ہواور اس کا مکمل تدارک پر ہرقیمت پریقینی بنانا ہوگا جس کے بغیر روپے کے مقابلے میں ڈالرکی اونچی پرواز کی روک تھام ممکن نظر نہیں آتی۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو