فوجی عدالتوں کے خلاف

عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع

ویب ڈیسک: فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ سپریم کورٹ نے درخواستوں پر وزیر اعظم شہباز شریف، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کر دیا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے سماعت کے تحریری حکم نامہ میں کہا ہے کہ سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیئے، کل وکیل فیصل صدیقی کے دلائل سنیں گے، تمام فریقین کو نوٹسز جاری کئے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا، چیف جسٹس نے اس بار نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو بھی بینچ کا حصہ بنایا تھا۔ ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰی آفریدی ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کا حصہ تھے۔ سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، تعجب ہوا کہ کل رات8 بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے9 رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں
آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کے لئے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں، اس کے بعد تعجب، دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31 مارچ کو عشرت علی صاحب نے سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے 31 مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی؟ پھرسپریم کورٹ نے6 ممبر بینچ بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقیناً مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا، مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔ نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چہ میگوئیوں سے بچنے کے لئے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لئے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا کہ نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی، آج کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی، میں اس بینچ کو ”بینچ”تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، بینچ سے اٹھ رہا ہوں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں، سب سے معذرت چاہتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں،کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔ اس موقع پر نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔درخواست گزار نے جسٹس فائز عیسٰی سے بینچ علیحدہ نہ ہونے کی استدعا کی توجسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ میں بینچ سے اٹھ نہیں رہا، یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنیکا حلف اٹھایا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب ایسا نہ کریں، عدالت کے ڈیکورم کا خیال کریں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اٹارنی جنرل نے کہا ترامیم کر رہے ہیں، ہمارے لئے تمام فاضل جج صاحبان کی عزت و احترام ہے، ہم نے جو کیا آئین کے مطابق کیا، چاہتے ہیں فیصلے حق اور انصاف کے مطابق ہوں، چاہتے ہیں فیصلے مخلوق خدا کی خاطر ہوں، دو معزز سینیئر ججز نے اعتراض کیا ہے
، ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے، اس عدالت کی روایت کے مطابق 2 سینیئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نہ کریں، آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بینچ آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا ہے، یہاں ہم مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔بعدازاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کے لئے7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا، اعتراض کرنے والے دونوں جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس سردار طارق مسعود بینچ میں شامل نہیں۔ وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ میں شامل جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ میں ایک درخواست گزار جواد ایس خواجہ کا رشتہ دار ہوں،کسی کو میری بینچ میں شمولیت پر اعتراض ہے تو ابھی بتادیں۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کسی کو آپ کی بینچ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ آپ کے بینچ کا حصہ ہونے پرکوئی اعتراض نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موسم گرماکی تعطیلات چل رہی ہیں
اس لئے تمام فریقین دلائل مختصر رکھیں، چھٹیوں میں ہمارے بینچ دیگر رجسٹریز میں ہوتے ہیں۔ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک میں آرٹیکل 245 کا نفاذ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ اس پر وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ناقابل تردید شواہد ہیں، سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا بریگیڈیئر۔ جسٹس منصور کے استفسار پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایس پی آر کا ہی جاری اعلامیہ ہے،کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی توثیق کی، اس میں انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست کرکے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پرحملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے
جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں نو دس ہزار افراد کو گرفتارکیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق میں رہیں،جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کئے گئے؟ جسٹس منصور نے پوچھا کہ کتنے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے اور کتنے گرفتار ہوئے؟ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ 10 مئی کو پہلے 50 افرادگرفتار کئے گئے، شاہ محمود قریشی، مراد سعید اور فرخ حبیب کے خلاف مقدمات درج ہوئے، پورے ملک سے 10 مئی کو 4 ہزار افراد گرفتار ہوئے، کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ جو تمام مقدمات بنائے گئے ان کو سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کوپہلے ہی حاصل ہے۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارا یہی موقف ہیکہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ جو متاثرہ ہیں کیا ان میں سے کسی نے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا؟ اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرے پاس اس قسم کی معلومات نہیں ہیں۔
اعتزاز احسن کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں نے درخواست دائر کی مگر فی الحال کسی متاثرہ شخص نے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔ جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے کیا اس قانون کوکسی نے چیلنج کیا؟ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف مقدمہ کون سنے گا؟ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ ہمیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں ، ہمارے پاس اس سے متعلق کوئی کتاب نہیں۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقلی کیلئے دی گئی درخواست دکھادیں۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے سوال کیا کہ کتنے لوگوں کے نام کورٹ مارشل کے لئے بھیجے گئے ہیں؟کوئی قانون یا ٹھوس بات بتائیں کس بنیاد پرسزائیں ہو رہی ہیں؟ جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ یاعدالت کو درخواست دی جاتی ہے کہ ان افراد کو ہم آرمی ایکٹ کے ٹرائل میں لے جانا چاہتے ہیں، عدالت نے کسی بنیاد پر تو مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ سویلینز پر قابل عمل نہیں تو اے ٹی سی کے مقدمات فوجی عدالت کیسے منتقل کرنے دیئے؟ جسٹس منصور نے کہا کہ کس قانون اور بنیاد پر سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی گئی؟ انسداد دہشت گردی عدالت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ہم ان افراد کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں تو کوئی پیش نہیں ہوا، یہی تو کہہ رہا ہوں
یہی سوال آپ کے سامنے لے کر آئے ہیں کہ کیسے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں بھیجا رہا ہے۔ جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی عدالت میں بحث ہوئی کہ کیوں فوجی عدالتوں میں مقدمات منتقل کئے جائیں؟ اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جب فارمیشن کمانڈرز اور کابینہ سے منظوری ہو تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے؟ جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا حکومت کا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اس کو چیلنج نہیں کرے گا؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ دکھادیں آرمی ایکٹ میں کہاں ہے کہ کن حالات میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے، آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ سزا کتنی ہوگی؟ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کہیں سویلینز کے ٹرائل کا ذکر نہیں۔ جسٹس منصور نے کہا کہ میرے خیال میں تو ہمارے سول قانون میں آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت سزائیں ہیں، اگرپوچھا جائے کہ فوج سے سزا چاہیے یا سول عدالتوں سے تو لوگوں کا رش لگ جائیگا۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا کہتا ہے کہ کون سے جرائم پر فوجی ٹرائل ہوگا؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں فوجی تنصیب پر حملے کا ذکر ہے لیکن یہ کورکمانڈر ہاس تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں انڈر ٹرائل پربنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ کس بنیاد پر دیا تھا۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ٹرائلز سے عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہوتی ہے، یہاں یہ ہوا جس نے پریس کانفرنس کی اس کو چھوڑ دیا جس نے نہیں کی اسے پکڑلیا، ہمارے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، میرے گھر پر حملہ ہوا ہے، سویلین کے فوجی ٹرائل پر امتناع دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر چیز حکم امتناع سے درست نہیں کی جاسکتی، امید ہے ابھی تک ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا ہوگا۔ جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ ملزمان کی حوالگی سے پہلے متعلقہ عدالت کو دائرہ اختیار دیکھنا چاہیے تھا، دائرہ سماعت نہ ہو تو عدالت ملزمان کی حوالگی سے انکار کرسکتی ہے، عدالت کہہ سکتی ہے یہ جرم فوجی عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سیکشن 549 میں تو ہے کہ متعلقہ افراد کو ان کے ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے، صرف فوجی افسران کی حوالگی ضابطہ فوجداری کے تحت ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چاہے سول کورٹ ہویا فوجی عدالت، ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے
یہاں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے، وکلا کو ہراساں کیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، لطیف کھوسہ کے گھرپرحملہ ہوا، عزیربھنڈاری کو چند گھنٹے کے لئے غائب کیا گیا۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ کسی بھی وکیل کو ہراساں کرنا غلط ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکم امتناع جاری نہیں کرسکتے، کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں ، اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہے گا، اگربینچ کا ایک بھی ممبر نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکے گی، تمام فریقین اپنے دلائل تحریری طورپرجمع کرادیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتارکیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا؟ خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟ بچوں کو بھی گرفتارکیا گیا ہے؟ پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے، لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی،ان کی ذاتیات میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے، ان سے پوچھیں کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تمام گرفتار افرادکے درست اعدادوشمار پیش کئے جائیں۔ کیس کی سماعت کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

مزید پڑھیں:  کینیڈا میں خالصتان زندہ باد کے نعرے گونج اٹھے