کچھ حقیقت کچھ فسانہ

گزشتہ روز گورنر خیبرپختونخوا اور پیسکو حکام کے مابین ملاقات میں جس طرح پشاور میں لوڈشیڈنگ کو دو گھنٹے تک محیط رکھنے کے حوالے سے جو فیصلہ کیا گیا ابھی اس پر پوری طرح عمل درآمد ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں اضافے کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئیں جس پر چند روز قبل یونیورسٹی روڈ پر عوام نے شدید احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے سڑک بلاک کرکے شہر بھر میں ٹریفک جام کی کیفیت پیدا کردی تھی جبکہ اب تازہ ترین صورتحال پیسکو اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے مابین تنازعہ نے خطرناک صورت اختیار کرلی ہے، ہسپتال میں بجلی لوڈشیڈنگ اور گیس مینجمنٹ کے مسائل گھمبیر ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کے مسائل میں گھر گئے ہیں۔ ہسپتال سے جاری ایک پریس ریلیز میں جو دعوے گئے گئے ہیں اگر ان کو مدنظر رکھا جائے تو یقیناً کسی بھی وقت انسانی حادثات جنم لے سکتے ہیں، ہسپتال کے دعوے کے مطابق 35 آپریشن تھیٹرز، میڈیکل آئی سی یو، سرجیکل آئی سی یو اور دیگر اہم وارڈز لیبارٹری وغیرہ کو 24 گھنٹے بلال تعطل بجلی کی فراہمی لازمی ہے، پیسکو کی جانب سے ہسپتال کے کینٹ اور دانش آباد فیڈرز لوڈشیڈنگ سے مسثنیٰ ہونے کے باوجود بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں لوڈ شیڈنگ کے دوران رات کو 6 گھنٹے تک سوئی گیس کی بندش سے ہسپتال کے کولر سسٹم کے چلرز بند ہوجاتے ہیں، ہسپتال میں ایک جنریٹر ایمرجنسی اور دوسرا باقی عام ہسپتال کو بجلی سپلائی کیلئے دستیاب ہے تاہم سنٹرل کولر سسٹم واپڈا کی بجلی کے بغیر نہیں چلایا جاسکتا، پریس ریلیز میں جہاں تک مریضوں سے متعلق بجلی اور سوئی گیس کی عدم دستیابی سے متعلق شکایات کا تعلق ہے یہ واقعتاً قابل توجہ ہے کیونکہ ایمرجنسی یونٹس اور وارڈز کیلئے بجلی فراہمی انتہائی ضروری ہے البتہ جہاں تک ہستپال کے بعض عملے کی جانب سے ہاسٹلز پر قبضے کا تعلق ہے جس میں متعلقہ ”غیر قانونی” قابضین یونین کا سہارا لے کر ان رہاشی کمروں اور فلیٹس کو خالی کرنے سے انکار کررہے ہیں اس کا نہ پیسکو سے کوئی تعلق ہے نہ سوئی گیس کے ادارے سے، اس حوالے سے ہسپتال انتظامیہ خود ہی مناسب طریقے سے ان کمروں کو خالی کرانے کی تدبیر کرے جبکہ جس ادارے یعنی بی ایم ایس اے کو بجلی اور گیس بلز کی ادائیگی کے حوالے سے ماہانہ کروڑوں کے بل ادا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اس ادارے سے وصولی بھی ہسپتال کی اپنی ہے اسی وجہ سے پریس ریلیز کے حوالے سے پیسکو اور سوئی گیس کو صرف ان حصوں تک بجلی اور گیس سپلائی کو یقینی بنانے کا پابند قرار دیا جاسکتا ہے جہاں یہ سہولیات نہ ہونے سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ بہرحال بہتر یہی ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کے جائز مطالبات پر متعلقہ ادارے ہمدرددانہ غور کریں اور کسی بھی ”حادثے” کے رونما ہونے کی نوبت نہ آنے دی جائے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟