لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں

یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ معاشرتی بحران کی کوئی نہ کوئی صورت درپیش نہ ہو بحران آتے رہتے ہیں اور راستے کی دیوار بنتے رہے ہیں اور بنتے رہیں گے ان کو آنے سے روکا نہیں جاسکتا بحران نے آنا ہی ہوتا ہے اور یہی مشاہدے اور تجربے کی بات ہے اسے پوری طرح روکا نہیں جاسکتا لیکن اس کے آنے کی راہیں مسدود کرنے کے لئے جتن ہو سکتے ہیں اور جتن جتنا مربوط ہوگا اور ٹھوس بنیادوں پر ادراک کے بعد عوامل کے تدارک کی مساعی ہوںگی بحران سے نمٹنا آسان ہوگا بحرانوں کا ظہور کوئی انوکھی بات نہیں ہوا کرتی اس وقت بھی ہمیں انہی کیفیات کا سامنا ہے مختلف النوع بحرانوں کا سامنا ہر معاشرے اور ہر ریاست کو کرنا پڑتا ہے اس وقت دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہر معاشرے کوکسی نہ کسی بحران کا سامنا ہے اکثرترقی یافتہ معاشروں کے حوالے سے گمان گزرتا ہے کہ وہاں بحران نہں آتے درحقیقت ایسا ہر گز نہیں بلکہ ترقی یافتہ مضبوط اور خوشحال معاشروں کو بھی اپنی بھر پور کامیابی اور خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے پڑتے ہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنے بحرانوں سے منظم طور پر نمٹنے کے لئے تیار ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تیاری مکمل ہوتی ہے اور ہماری طرح بلا سر پر آنے کے بعد ہڑ بڑاکرنہیں اٹھتے اور نہ ہی ہڑبونگ کا شکار ہو کر الٹے سیدھے اور بے نتیجہ اقدامات کرتے ہیں بلکہ ان کا ادراک مضبوط اور اقدامات پوری طرح مربوط ہوتے ہیں اور وہ باقاعدہ منصوبہ بندی اور احسن طریقے سے حالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں وہ یہ ہنر جانتے ہیں کہ کب کن حالات میں کیا کرنا ہے اور کیا کرنا چاہئے ایسا راتوں رات نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے جس جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس کسوٹی پرپورا اترتے ہیں ان کے مقابلے میں ہمارے ہاں صورت حال سراسر برعکس ہوتا ہے یہ نکتہ خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ محولہ معاشرے حکومتیں اور ریاستیں ہر بحران سے نمٹنے کے لئے باضابطہ منصوبہ بندی کا سہارا لیتے ہیں یہ بھی قابل توجہ امر ہے کہ ترقی یافتہ معاشروںکو بھرپور کامیابی اس وقت ملی جب وہاں کے لوگوں نے ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے کی بجائے اور انفرادی سوچ کی سطح سے بلند تر ہو کر ادارے بنانے کا اجتماعی سوچ اپنایا اور مضبوط و مستحکم ادارے قائم کرکے کام کرنے کو ترجیح دی ان کے ادارے اتنے مستحکم اور پائیدار ہیں کہ ان معاشروں میں افراد کی بجائے نظام اور ادارہ جاتی استحکام ہے لوگ آتے جاتے ہیں مگر اس سے ان کے اداروں کے نظام اور کام پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ہر نیا آنے والا نئے عزم کے ساتھ اس کا م کا بیڑا اٹھاتا ہے اور ہماری طرح ہر کہ آمد عمارت نو ساخت کی بجائے وہ منصوبہ اورکام جہاں پہنچا ہوا ملتا ہے اسے پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے ایسے میں خدمات ہوں یا دیگر منصوبے ان کا تسلسل متاثر نہیں ہوتا بلکہ خوش اسلوبی سے ان کوآگے بڑھایا جاتا ہے اگر ہمیں ترقی مطلوب ہے اور معاشرے کو حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار رکھنا ہے تو اس طرح کی سوچ اپنانی ہوگی اس طرح کے کردار و عمل کا مظاہرہ ہی ہمیں آگے بڑھنے کی راہ دکھائے گی اگر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور چور وڈاکو قرار دینے کی زبانی تکرار ہوتی رہے گی اور حقیقی احتساب کرکے معاشرے اور نظام کواستحکام کی راہ پر گامزن کرنے کے عملی جتن نہ ہوں گے تو ہمارے حالات آسمان و زمین اور کائنات کامالک بدلے تو وہ عظیم و اکمل ذات ہے ان کے کمالات اپنی جگہ مگرحالات بدلنے کے لئے ان کا فارمولہ بھی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے ان کا بھی فرمان ہے کہ وہ ان لوگوں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ لوگ اور معاشرہ خود کوشاں نہ ہو دوسرا فارمولہ وہ نافرمانوں کومٹا کرنئے لوگوں کوآگے لاتا ہے بہرحال یہ خدائی معاملات ہیں ہمیں اپنے طور پر اپنے معاملات کی اصلاح کی ذمہ داری نبھانی ہے ۔یہ بیڑا کسی اور نے نیں ہم سب نے مل کر اٹھانا ہے اور انفرادیت کو اجتماعیت میں بدلنا ہے ‘ بدقسمتی سے وطن عزیز کوڈھائی تین عشروں کے دوران مسلسل مختلف قسم کے سیاسی ‘ معاشی اور معاشرتی بحرانوں کا سامنا ہے ایک بحران سراٹھاتا ہے اس سے ابھی نمٹنے میں کامیابی نہیں ہوئی ہوتی کہ دوسرا بحران مزید شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے سیاسی معاشی معاشرتی اور مذہبی ہر میدان اور شعبے میں ہمارا بحرانوں سے واسطہ اور اس کے پس پردہ عناصر کی سازشی منصوبہ بندی کا ہم باآسانی شکار ہونے کے باوجود کبھی اس پر غور کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ اس سوراخ سے دوبارہ نہ ڈسے جائیں جس میں سانپ اور بچھو ہونے کا تجربہ اور یقین ہوتا ہے ہم بڑے شوق سے دوبارہ اس اوکھلی میں سردے دیتے ہیں اور یہی ہمارا وہ قومی و معاشرتی کردار ہے جو سب سے بڑی کمزوری بن کر اعصاب پر سوار ہے جسے اتار پھینکے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔ ہم اپنی اس کمزوری پر قابو پانے کی طرف متوجہ ہونے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ حالات سے نمٹنے کے لئے وہ سطح اپنائیں جو ناگزیر ہو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ کرنے کا سوچیں اور کامیابی نہ ملے یہ قدرت کا اصول ہی نہیں کہ کوئی بھی شخص معاشرہ جب کسی معاملے میں سنجیدگی کے ساتھ عمل کا پہلو اختیار کرے تو قدرت کی طرف سے بھی تعاون شامل حال نہ ہو۔ ایک اور معاشرتی کیفیت ہماری یہ ہے کہ ہم ہر بحران کو بحران اور مصیبت ناگہانی زمینی و آسمانی سمجھتے ہیں چیلنج نہیں سمجھتے اور اس سے نمٹنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے ۔ اس طرح ہم بس بیٹھے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ بلائے ناگہانی ٹل جائے یاپھر اس کا حالات ہی سے کوئی حل سامنے آئے ایسے ہیںاس وقت تک ہم جتنے متاثر ہوتے ہیں اس کا نہ تو ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی ملال حالانکہ اگر صورتحال کو چیلنج سمجھ کر اس کا استقامت سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی جائے تو کوئی نہ کوئی حل نکل سکتا ہے وہی قانون قدرت کہ حرکت میں برکت ہوتی ہے جب حرکت ہی نہ ہو چیلنج ہی نہ سمجھا جائے تو اور حالات کے بدلنے کو قدرت و فطرت ہی پرچھوڑا جائے تو کافی نقصان اٹھانے اور وقت گزرنے پر کوئی راہ نکلنی ہوئی ہے اور ہمارے ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ چشم فلک نے ایسے بہت سے معاشرے دیکھے ہیں جو انحطاط اور پستی کا شکار تھے پھر ان معاشروں کے لوگوں نے حالات کو بدلنے کی ٹھانی اور اٹھ کھڑے ہوئے تو قدرت نے بھی یاوری کی اوروہ اپنی پستی سے نکل کر ترقی و خوشحالی کی بلند یوں پر جا پہنچے اس میں وقت ضرور لگتا ہے مگر کامیابی بھی ضرور حاصل ہوتی ہے کیاہمیں اسلام کی ابتدائی ایام اور اس عظیم جدوجہد سے سبق حاصل نہیں کرنی چاہئے جس ے کایا پلٹ گئی یا پھر دور جدید میں ترقی یافتہ معاشروں کے پیچھے کار فرما جدوجہد کو نظیر نہیں بنانی چاہئے کہ گراں خواب چینی کیسے سنبھلے ہو سکے تو شاعر مشرق علامہ اقبال کا ساقی نامہ کے عنوان سے کلام ضرور پڑھ لیں۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال