افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

سوشل میڈیا تو اس دور میں نہیں تھا بلکہ ایجاد بھی نہیں ہوا تھا’ البتہ صوتی نشریات یعنی ریڈیو کا طوطی بول رہا تھا اور جرمنی کے پروپیگنڈہ باز وزپر گوئبلز نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قدر جھوٹ بولا اور پھیلایا کہ اتحادی افواج نے محض پروپیگنڈے سے متاثر ہو کرکئی محاذوں پر جرمن فوجوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیئے تھے’ اب تو ماشاء اللہ سوشل میڈیا پر جو جھوٹ’ بہتان اور الزام تراشی ہو رہی ہے تو اس سے یقیناً گوئبلز کی روح بھی سرشار ہو رہی ہوگی تازہ ترین جھوٹ (اگر یہ واقعی سچ نہیں ہے) صدر مملکت عارف علوی کے حوالے سے پھیلایا گیا کہ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ سرکاری خرچ پر حج کے لئے گئے ہیں’ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ان کی روانگی سے کئی روز قبل ہی سے کی جا رہی تھی لیکن دوسری جانب سے مکمل خاموشی طاری تھی تاہم ان کے خاندان کے کئی افراد کی روانگی کے بعد ایوان صدر کے پریس سیکرٹری نے عویٰ کیا ہے کہ صدر عارف علوی اپنے اہل خانہ کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں، میڈیا نے ابتداء میں دعویٰ کیا تھا کہ صدر عارف علوی کا 52 رکنی وفد ان کے اہل خانہ اور سیکرٹری عملہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے حج کرے گا’ صدر کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی ارکان پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ کے لئے خصوصی حج پرواز سے متعلق بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا بعد ازاں صدر کے 25 ارکان کے ہمراہ ان کے اہل خانہ اور سکیورٹی سٹاف کی فہرست سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر حج کرنے کے لئے اور کون رہ گیا ہے؟ سرکاری طور پر حج کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے اور سابق کئی ادوار سے سرکاری حج سے استفادہ کرنے والوں کی اگر کوئی فہرست مرتب کی جائے تو شاید”دس والیوم” بن جائیں گے’ اس حوالے سے کبھی کبھی لاتعداد ایسے ہی جید علماء بھی شامل ہوتے رہے ہیں جن کے نزدیک شاید یہ کوئی قابل اعتراض بات نہ رہی ہو’ اس حوالے سے کسی نے کیاخوب کہا ہے کہ
ای عقل خجل زجہل و ادانی ما
درہم شدہ خلقی ‘ زپریشائی ما
بت دربغل و بہ سجدہ پیشانی ما
کافرزدہ خندہ برمسلمانی ما
بات ہو رہی تھی صدر مملکت کے وفد کی جومیڈیا پرابتداء میں 52 رکنی’ بعد میں 25 رکنی قرار دیا گیا تاہم اب صدر کے پریس سیکرٹری کے مطابق وفد صرف صدر کے خاندان کے سات افراد پر مشتمل ہے اور یہ وہی فلائیٹ ہے جس پر وفاقی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ سوارتھے’ صدر کے لئے کوئی چارٹرڈ فلائٹ نہیں تھی جبکہ صدر مملکت ایئر ٹکٹ کے ساتھ ساتھ رہائش کے تمام اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں’ صدر کے خاندان کے علاوہ ان کے عملے کے پانچ افراد بھی وفد میں شامل ہیں اب اس صورتحال پر میرتقی میر سے ہی استفادہ کیا جا سکتاہے جنہوں نے کہا تھا کہ
پیدا کہاں ہیں ا یسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
صدرمملکت نے ملکی سیاست میں جو ”کھیل کھیلے ” اور اپنے عہدے کے تقاضوں کے حوالے سے غیر جانبدرانہ کردار ادا کرنے کے بجائے تحریک انصاف کے ایک رکن کا کردارادا کرتے ہوئے جو مسائل کھڑے کئے ان سے قطع نظر حج جیسے مقدس سفر کو ”مراعات” سے آلودہ نہیں کیا’ اس پر یقیناً ان کی ستائش تو بنتی ہے اگرچہ انہوں نے اس حوالے سے خود کوئی وضاحت نہ دے کر واضح کردیا ہے کہ سفر حج ان کاذاتی فعل ہے جو اللہ کے ساتھ بندے کا واستہ ہوتا ہے اس لئے بقول غالب
نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پرواہ
دکھ مگران ٹرولز پر ہوتا ہے جوبغیر تحقیق کے محض ایک خبر کی بنیاد پر الزام تراشی شروع کردیتے ہیں’ جیسے کہ اس سے پہلے میاں نوازشریف پر الزامات کے حوالے سے کسی تحقیق کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور ایک خاص طبقہ ان کی وزیراعظم ہائوس میں ”شاہ خرچیوں” کے بارے میں سنگین الزام تراشیاں کرتے ہوئے ان کی کردار کشی کرتا رہا مگرجب عمران خان نے اقتدار سنبھالا اور میاں صاحب کے دور کے اخراجات کے حوالے سے تحقیق کی تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ میاں صاحب وزیراعظم ہائوس کا کچن اپنی جیب خاص سے چلاتے رہے اور تنخواہ بھی نہیں لی ‘ میاں صاحب کو جس طرح سازشوں کے تانے بانے بن کر اقتدارسے محروم کیا گیا اب وہ ایک ایک کردار ”عریانیت” کے عذاب میں مبتلا ہو کر اپنے سیاہ چہروں کے ساتھ سامنے آرہے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار
خوب رسوا ہوئے ‘ سنگسار ہوئیں تعبیریں
روپ برہم ہوا ‘ نادانیاں آباد رہیں
شہر نابینا کی ہر راہگزر پر اظہار
عہد کم ظرف کی من مانیاں آباد رہیں
بڑے میاں کے بعد اب چھوٹے میاں یعنی شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو ان کے حوالے سے بھی یہی خبریں آئیں کہ نہ صرف ان کے دور میں وزیراعظم ہائوس کے کچن اخراجات ان کی جیب سے ادا ہو رہے ہیں، ان کے بیرون ملک دوروں کے اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں بلکہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی بیرون ملک دوروں کے اخراجات ذاتی طور پر جیب خاص سے ادا کر رہے ہیں اور اب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے حوالے سے ان کی تنخواہ اور مراعات کا بل پاس ہونے کے بعد جو کچھ سوشل میڈیا پر اعتراضات کی صورت میں سامنے آرہا ہے اس کو موصوف نے چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھی اپنے کچن کے اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں اور اپنی بیگم کے ٹی اے ڈی اے کی وصولی کو بھی غلط قرار دے دیا ہے’ چلو چھٹی ہوئی’ اب اگر کسی کو شک ہو تو تحقیق کرکے ان کوغلط ثابت کردے ‘ ہاں یہ جوانہوں نے ایک کی بجائے دس جہاز کی سہولت فراہم کرنے کی بات کی ہے تو اس پر ”تنگی ‘ بھوکی ‘ بے روزگاری کے عفریت سے لڑنے والی قوم” کو ضرور غور کرنا چاہئے’ البتہ غور کرتے ہوئے خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب کے دور کا حوالہ دینے سے گریز کرے جن کے ہزاروں میل پر محیط حکومت کے دور میں انہوںنے ٹی اے ڈی اے کے لئے بیت المال سے گھوڑا تک نہیں لیا بلکہ جب بیت المقدس کا قبضہ لینے تشریف لے گئے تو سفرکے دوران اپنے غلام کو سواری کی باری دیتے رہے۔ باقی تاریخ ہے۔
قوی شدیم چہ شد ‘ ناتواں شدیم چہ شد
”چنیں” شدیم چہ شد’یا”چناں”شدیم چہ شد
بہ ہیچ گونہ قرارے ‘ دریں گلستاں نیست
تو گربہار شدی ‘ من خزاں شدیم چہ شد

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری