مشرقیات

برکاتِ حکومتِ غیر انگلشیہ:
عزیزو!بہت دن پہلے اس ملک میں انگریزوں کی حکومت ہوتی تھی اور درسی کتابوں میں ایک مضمون "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ” کے عنوان سے شامل رہتا تھا۔اب ہم آزاد ہیں۔اْس زمانے کے مصنف حکومتِ انگلشیہ کی تعریف کیا کرتے تھے،کیونکہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ہم اپنے عہد کی آزاد اور قومی حکومتوں کی تعریف کریں گے۔اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔
عزیزو!انگریزوں نے کچھ اچھے کام بھی کئے لیکن ان کے زمانے میں خرابیاں بہت تھیں۔کوئی حکومت کے خلاف لکھتا یا بولتا تھا تو اس کو جیل بھیج دیتے تھے۔اب نہیں بھیجتے۔رشوت ستانی عام تھی۔آج کل نہیں ہے۔دکاندار مہنگی چیزیں بیچتے تھے اور ملاوٹ بھی کرتے تھے۔آج کل کوئی مہنگی نہیں بیچتا۔ملاوٹ بھی نہیں کرتا۔انگریزوں کے زمانے میں امیر اور جاگیردار عیش کرتے تھے،غریبوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔اب امیر لوگ عیش نہیں کرتے اور غریبوں کو ہر کوئی اتنا پوچھتا ہے کہ وہ تنگ آجاتے ہیں۔خصوصا حقِ رائے دہندگی بالغاں کے بعد سے۔
تعلیم اور صنعت و حرفت کو لیجئے۔ربع صدی کے مختصر عرصے میں ہماری شرح خواندگی اٹھارہ فیصد ہوگئی ہے۔غیر ملکی حکومت کے زمانے میں ایسا ہوسکتا تھا؟انگریز شروع شروع میں ہمارے دستکاروں کے انگوٹھے کاٹ دیتے تھے،اب کارخانوں کے مالک ہمارے اپنے لوگ ہیں۔دستکاروں کے انگوٹھے نہیں کاٹتے ہاں کبھی کبھار پورے دستکار کو کاٹ دیتے ہیں۔آزادی سے پہلے ہندو بنئے اور سرمایہ دار ہمیں لوٹا کرتے تھے۔ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنئے اور سیٹھ لْوٹیں۔الحمداللہ کہ یہ آرزو پوری ہوئی۔جب سے حکومت ہمارے ہاتھ میں آئی ہے۔ہم نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔درآمد برآمد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ہماری خاص برآمدات دو ہیں۔وفود اور زرِ مبادلہ۔درآمدات ہم گھٹاتے جارہے ہیں۔ایک زمانہ میں تو خارجہ پالیسی تک باہر سے درآمد کرتے تھے۔اب یہاں بننے لگی ہے۔
ابن انشا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے۔لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابلِ رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔اب سگریٹ کو ہی لیجیے۔ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں ، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے۔اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انہوں نے چھوڑ دی۔
کہنے لگے ، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔
(مشتاق احمد یوسفی، موذی، چراغ تلے)

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو