تیری دولت نے ترے عیب چھپا رکھے ہیں

عید کے روز ایک دوست مولانا روم کی مثنوی سے چند اشعار کی تشریح کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مولانا نے کیسے دولت کو عیب پوشی کا ذریعہ بتایا ہے جبکہ آج کل بڑے بڑے لوگوں کی دولت ہی ان کے عیب ظاہر کر رہی ہے ۔ دوستوں کی محفل میں بحث چھڑ گئی اور اس حوالے سے دولت کی نوعیت ، منصب ، فہم و فراست ، روئیے ، شخصی اوصاف، امارت و غربت اور کمال و جمال کی خوب باتیں ہوئیں ۔ یہ مانا کہ بہت سی معروف شخصیات اور بہت سے عہدے داروں کی دولت نے انہیں سیاسی تناظر میںعیب دار بنا دیا وگرنہ ایسے گمنام دولت مندوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جن کی دولت نے ان کے عیب چھپا رکھے ہیں ۔ اس مادی زندگی میں مال بہت عیب پوش ہوتا ہے جس سے مالدار کے عیب ڈھک جاتے ہیں ۔ ایک غریب کے معمولی سے عیب کو بھی لوگ بانس پر چڑھا دیتے ہیں ، وہ بدی کم کرتا ہے مگر بدنام زیادہ ہو جاتا ہے ۔ مرزا غالب نے اپنی شراب نوشی کے بارے ایک رباعی میں کہا ہے کہ ساقی ہمیں پیالے کی بجائے چھلنی میں شراب دیتا ہے ، نیچے دامن تر ہو جاتا ہے اور اوپر لب خشک رہتے ہیں ۔ یہی تر دامنی یا بد نامی ہی ہمارے حصے میں آتی ہے ، یوں ہم مفلسوں کی شراب نوشی بیہودہ کوشی میں بدل جاتی ہے۔ مولانا رومی کہتے ہیں کہ مال دار کو زیادہ تراپنے عیب چھپانے کے لیے مال کی ضرورت پڑتی ہے ، خواہ حماقت کی زندگی بسر کر رہا ہو یا وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو ۔ عام آدمی اس کے بارے کچھ نہیں کہتا بلکہ اس کے اسراف کو سخاوت اور اس کی عیاشی کو رنگینی سے یاد کرتا ہے ۔ سرمایہ دار یہاں پیسے دے کر اپنے جرم کی سزا سے بھی بچ جاتا ہے اور ساتھ ہی حکمرانوں کو بھی دوست بنا لیتا ہے ۔ کوتوال کا ڈر نہیں رہتا کہ وہی اس کے عیوب کی حفاظت کرتا ہے ۔ شورش کا شمیری نے لکھا ہے کہ غریب اپنی غلطی مولوی اور تھانیدار کو نہ بتائے ورنہ وہ مولوی کی زبان درازی اور تھانیدار کی دست درازی سے نہیں بچ سکتا ۔ دولت کے سوا سرمایہ داروں کی ایک اکثریت کے پاس کوئی ذاتی ہنر یا کمال نہیں ہوتا کہ کسب کمال سے وہ مقبول ہو سکے ، نہ ایسا اخلاق ہوتا ہے کہ لوگ دل سے اس کی عزت کریں ۔ جب مال ہاتھ میں باقی نہیں رہتا تو پھر اُسی مالدار کی عزت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اس کی خوبیوں کا راگ الاپنے والے ، دستر خوان پر روٹی کھانے والے اور ہر جگہ گن گانے والے ہی اب اس کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں ۔
مولانا کہتے ہیں کہ یہ دولت منداصل میں گنجے ہوتے ہیں اور مال ان کے سر کی ٹوپی ہوتی ہے ۔ وہ لوگوں کے سامنے ٹوپی اُتارنا نہیں چاہتے کہ ان کا گنج ڈھکا ہوا ہوتا ہے ۔ اگر گردش روزگار سے کبھی یہ ٹوپی اُتر جائے تو گنج نمایاں ہو جاتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں جس شخص کے اعلیٰ صفا ت اس کی ہستی کا جزو ہوتے ہیں ، اُسے کسی عیب پوش دولت کی ضرورت نہیں رہتی ۔ یہاں مولانا ایک اور تشبیہ سے کام لیتے ہیں کہ مرد حق چشم بصیر کی طرح ہوتا ہے ، کوئی شخص آنکھوں کو ڈھانپنے کی کوشش نہیں کرتا کہ بصارت کی خوبی اس کی برھنگی میں ہے ۔ پوشش تو اس لیے عیب پوش سمجھی جاتی ہے کہ کپڑے پہنے ہوئے کسی شخص کے جسم کی اصلیت دکھائی نہیں دیتی ۔ اس بحث کے دوران ایک دوست نے کہا کہ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کہ مال کو چوروں اور ڈاکوؤں کا خطرہ رہتا ہے لیکن مردان خدا کے نزدیک مال خود ایک رہزن ہے ، اگرکوئی شخص تمہارا فالتو مال اور غلط طریقہ سے جمع کی ہوئی دولت چرا لے تو یہی سمجھو کہ ایک چور کو دوسرا چور لے گیا ہے ۔ یوں مال بھی نہ رہا اور عیب پوشی بھی نہ رہی ۔ اگر دیکھا جائے تو انسانوں کی خیر طلبی کا بھی وہی حال ہے جو زر طلبی کا ہے ۔ ہر شخص فطری طور پر خیر یا بھلائی کا طالب ہوتا ہے لیکن خیر و شر میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے وہ ایک حد تک دھوکے میں رہتا ہے اور ظاہری چمک دمک دیکھ کر ادنیٰ دھات کو بھی سونا سمجھ لیتا ہے ۔ دانا لوگ اصل میں وہ ہوتے ہیں جن کے دل خیر و شر کی کسوٹی ہوتے ہیں ۔ انسان کا دل ایک حوض کی طرح ہے ۔ علم و عمل کے لحاظ سے انسان کی اپنی قوتیں محدود ہیں لیکن حوض کا اندرونی راستہ اگر کسی دریا سے ملا ہوا ہے تو فیضان و عرفان سے یہ حوض بھرا رہے گا ۔ مکارم اخلاق رکھنے والوں کے لیے یہی وہ مال ہے جس پر وہ فخر کرتا ہے ۔ دولت مند اپنی دولت کے ذریعے جو عزت حاصل کرنا چاہتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ عزت و احترام اس شخص کو حاصل ہے جس نے تزکیہ نفس اور خلوص کے ذریعے سے دلوں کو اپنی طرف کھینچا ہے ۔ ہاں مگر اس دنیا کی نعمتیں بھی عبث نہیں ، وہ بھی اللہ کا انعام ہیں ۔
خدا کا فرمان ہے کہ کون ہے جو اللہ کی نعمت اور زینت کو حرام قرار دے ؟ لیکن دنیا طلب یہ بھول جاتا ہے کہ اس عالم تنگ دست کی نعمتیں بھی اس پر عالم بالا کا فیضان ہیں ۔ بس اسی حکمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لا مکاں کے فیوض سے ہی ہمارے مکان آراستہ ہیں ۔ روایت ہے کہ ایک شخص بڑا دانا اور معاملہ فہم تھا لیکن اپنی تمام دانش کے باوجود نان شبینہ کا محتاج رہتا تھا ۔ ایک بار بھوکا پیاسا راستے میں کھڑا مال سے لدے ہوئے اونٹوں کے ایک قافلہ کو دیکھ رہا تھا ۔ آخری اونٹ کی ڈور پکڑے شخص سے پوچھا کہ یہ مال کس بڑے سوداگر کا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ مَیں ہی مالک ہوں ۔جس پر دانا شخص نے کہا کہ یقینا تم نے اپنی فراست سے تجارت میں ترقی کی ہے ، یہ بتاؤ کہ اونٹوں پر کیا لدا ہوا ہے ۔ اس نے بتایا کہ ہر اونٹ پر ایک طرف دو من گہیوں ہے اور دوسری طرف دو من ریت ہے ۔ جب ریت کے بارے پوچھا کہ یہ کیوں لاد رکھی ہے تو تاجر نے جواب دیا کہ اونٹ کے دونوں طرف وزن برابر ہونا چاہیے ۔ دانشور نے کہا کہ اطراف کو ہم وزن رکھنے کی بات تو جائز ہے مگر تم نے ریت لادنے کی بجائے دوسری طرف گہیوں لاد کر وزن کو برابر کیوں نہ کیا ۔ اونٹ بھی بچ رہتے ۔ تاجر نے کہا کہ تم نے عقل کی بات کہی ، مال لادتے ہوئے مجھے بالکل خیال نہیں آیا ۔ کہو تمہارے پاس کتنے اونٹ اور کتنا مال ہے ؟ دانشور نے کہا کہ مجھے تو دو روز سے روٹی نہیں ملی اوربھوکا ہوں ۔ تاجر نے کہا سبحان اللہ ! مال ایک کو دے دیا اور عقل دوسرے کو دی ۔ بھائی ایسی بے رزق عقل تمہیں ہی مبارک ہو ، ہم احمق ہی اچھے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ہند چین کشیدگی