ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

بندہ بشر ہے ، بھول چوک ہو ہی جاتی ہے گزشتہ کالم میں ہم سے بھی تھوڑی سی سہو ایک لحاظ سے یوں ہوئی کہ ہم نے مسئلے کے صرف ایک پہلو کو ہی دیکھا اور سکے کا دوسرا رخ دیکھنے میں ایک آنچ کا کسر رہ گئی تھی تاہم اس پر بات کرنے سے پہلے وفاقی وزیر حج و مذہبی امور سینیٹر طلحہ محمود کے تازہ بیان کو دیکھ لیتے ہیں جس کا ایک طرح سے تعلق اسی معاملے سے جڑتا ہے جس پر گزشتہ کالم میں تبصرہ کیا گیا تھا، وزیر حج نے فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد واپس اگر اگلے سال کے لئے ایک لاکھ79 ہزار سے زیادہ حج کوٹہ لانے کی خوشنجری دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو مفت حج کرنے دیا نہ کرنے دوں گا، صدر علوی کے ساتھ کتنے لوگ حج پر گئے مجھے علم نہیں ، صدر کے حج کا میری وزارت سے تعلق نہیں، وہ شاہی حج پر گئے تھے ، مجھے شاہی مہمان کے طور پر حج کی پیشکش تھی مگر میں نے عام آدمی کی طرح حج کرنے کو تر جیح دی اور میں بھی ان تمام مسائل سے گزرا ہے جن سے عام آدمی گزرتا ہے تمام مسائل سعودی وزیر کو بتائے جس پر انہوں نے آئندہ ان مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ در اصل وفاقی وزیر مذہبی امور کے بیان کی روشنی میں اپنے گزشتہ کالم میں صدر علوی کے حوالے سے صدر ملک کے پریس سیکرٹری کی وضاحت پر ہم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ تصویر کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک روشن اور ایک تاریک یا جیسا کہ اوپر کی سطور میں اس صورتحال کو سکے کے دورخ قرار دیا مگر ہم نے صرف ایک رخ کا تذکرہ کیا جبکہ بعض تجزیہ کارون، تبصرہ نگاروں اور یوٹیوبرز نے مسئلے کے جس دوسرے رخ سے پردہ سرکا کر کہا ہے کہ معاملہ وہ نہیں یعنی بقول شاعر
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
اور اس دوسرے رخ کی نشاندہی وفاقی وزیر مذہبی امور نے بھی کر دی ہے کہ صدر” شاہی” دور ہ حج پرتھے اور ان کے ساتھ کتنے لوگ تھے یعنی فلم شعلے کے مشہور زمانہ ڈائیلاگ ”کتنے آدمی تھے؟” اگرچہ وزیر موصوف نے صدر مملکت کی پردہ گیری کی ہے تو وگرنہ یہ بات ان سے ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی کہ صدر مملکت کے وفد میں کتنے اور کون کون لوگ تھے ، خیر بات دراصل یہ نہیں کہ تعداد کتنی تھی اصل مسئلہ کچھ اور ہے جس کی طرف بعض تبصرہ نگاروں نے توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک”ہوائی” چھوڑ دی ہے کہ بقول ان کے اس دورے سے صدر مملکت نے اربوں نہیں تو کروڑوں ضرور بنا لئے ہیں۔اور وہ یوں کہ بعض اطلاعات کے مطابق صدر عارف علوی نے وہاں وزارت خارجہ کی وساطت سے مبینہ طور پرپاکستانی سفارتخانے کے حکام کو اس بات پر مجبور یا آمادہ کیا کہ سعودی ولی عہد کے ساتھ ان کی ملاقات کا اہتمام کیا جائے ۔ جس کے بعد متعلقہ سفارتی حکام سر گرم ہوگئے اور بالآخر یہ ملاقات ممکن ہو سکی ۔ بات ملاقات تک رہتی تو کوئی بات نہ تھی مگر وہ جو مشہور ہے کہ بنیئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے تو دراصل اس ملاقات سے بقول تجزیہ نگاروں کے صدر مملکت جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہی سکے کا دوسرا رخ ہے۔ یعنی ”شاہی” مہمانوں کو ایسی ملاقاتوں کے دوران جو بیش قیمت تحائف سعودی حکام دیتے ہیں۔ان کی مالیت کا اندازہ تو توشہ خانہ کے حکام ہی کر سکتے ہیں اور جس کا تذکرہ سابقہ حکومت کے پونے چار سالہ دور میں عوام کی آنکھیںکھول دینے کے لئے کافی تھا جبکہ ماضی بعید کی حکومتیں بھی اس قسم کے تحائف سے کما حقہ”بھر پور ” استفادہ کرتی رہی ہیں لیکن سابقہ حکومت کے کارنامے تو”سفوف شر مندگی کے سنہرے ذروں” سے لکھے جانے کے قابل تھے کیونکہ چند ایک کی نشاندہی سے ہی ہم ”قومی حمیت ” کھو چکے ہیں جبکہ لا تعداد تحفے ایسے بھی تھے جن کا یا تو کوئی ریکار ڈ ہی موجو د نہیں یا پھر مبینہ طور پر ان کی نقل بنا کر نوشہ خانہ میں جمع کرائی گئی اور اصلی مال” باروبار” ٹھکانے لگا دیا گیا ، یہ نعرہ لگاتے ہوئے کہ ”چل استاد ڈبل اے” ۔ ایسے ہی”الزامات” صدر مملکت پر بھی لگائے جاتے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیرونی دوروں کے دوران حاصل کردہ ”تحائف” کی بھنک بھی سرکاری تو شہ خانہ والوں کو نہیں پڑنے دی اور نہ جانے کتنے تحائف ”باروبار” ہی اپنے گھر لے گئے یہ بہر حال دروغ بر گردن را وی قسم کے الزامات ہیں جن کی تحقیق ہونی چاہئے ۔ تاہم اب کی بار تو انہوں نے حد ہی کردی کہ اپنے وفد میں اپنے اہل خاندان( اہلیہ سے لیکر پوتوں’ پوتیوں’ نواسوں نواسیوں اور دیگر متعلقہ افراد) کے علاوہ اپنے ماتحت عملے کے افراد کو بھی لے گئے، تاکہ”تحالف”کا جمعہ بازار لگا کر خوب خوب”مال”اکٹھا کیا جائے۔ اور واپسی پر(سابقہ تجربات کی روشنی میں) ان تحائف کے پہلے تو ذکر ہی نہ کیا جائے اواگر اس سے جان نہ چھڑائی جا سکے تو صرف خود کو موصول ہونے والے تحائف کو ڈکلیئر کرکے اس کی کم سے کم مارکیٹ ویلیو ظاہر کر کے مقررہ قیمت ادا کر کے ان تحائف کو ٹھکانے نکلنے کا بندو بست کیا جائے، تاہم اپنے اہل خاندان کو ملنے والے ممالک کا کوئی ذکر سرے سے کیا ہی نہ جائے اور نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری کے مصداق ”چل استاد ڈبل اے”کا نعرہ مستانہ لگا کر بناء ڈکلیئریشن ہی گھر روانہ کیا جائے ‘ اس لئے یہی وہ نکتہ ہے جس کا تذکرہ ہم سے گزشتہ کالم میں سہواً رہ گیا تھا ‘ اب یہ سودا کسی بھی طور گھاٹے کا تو نہیں ہوا ناں یعنی بقول شاعر
کیا خوب سودا نقد ہے
اس ہاتھ لے ‘ اس ہاتھ دے
بلکہ ایک پرانی بھارتی فلم میں ایک مشہور مکالمہ دو بندوں کے درمیان کچھ ان الفاظ میں ادا کیاگیا ہے جب ایک بندہ مدمقابل سے اس کے کاروبار کے حوالے سے سوال کرتا ہے تو جواب ملتا ہے ‘ ہم امپورٹ ‘ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں ‘ یعنی ادھر کا مال ادھر اور ادھر کا سب مال ادھر۔۔ خیریہ تو فلمی دنیا کے مزاحیہ کرداروں کے درمیان فکاہیہ مکالموں کی بات ہے جس کو صرف ا لفاظ سے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ متعلقہ فلمی مناظر کو دیکھ کر ہی ان سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے ‘ البتہ یہ جوایک عرصے سے ہمارے ہاں توشہ خانہ اب زیادہ شدت سے زیر بحث آرہا ہے تو اس کا واحد علاج یہ ہے کہ توشہ خانہ کوملنے والی(ماسوائے کھانے پینے کی اشیائ) باقی تمام کی ذاتی حوالگی پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور کسی بھی حکومتی شخصیت کے بیرون ملک دوروں کے دوران ملنے والی تحائف کولازمی طور پر قانون کے مطابق ڈکلیئریشن کولازمی قرار دیا جائے ‘ تاکہ اتنے”سستے اور آسان” سودوں کی بندر بانٹ کا راستہ بند کیا جائے ‘ صدر مملکت کوبھی اس بات کا پابند کیا جائے کہ واپسی پر اپنے پورے وفد کو ملنے والے تحائف کو ڈکلیئر کرے تاکہ مبینہ ” بدعنوانی ” کا راستہ بند ہو سکے ۔بقول علامہ اقبال
خلق خدا کی گھات میں رندو فقیر ومیر و پیر
ترے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ