سکھ کیمسٹ

مئی کے تیسرے عشرے کے شروع میں حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں چود ہ سے بیس فیصد اضافہ کر دیا ڈریپ نے ایک سو دس ادویات کی قیمتیں بھی بڑھانے کے لئے حکومت سے سفارش کی تھی جس میں کینسر ‘امراض قلب ‘بلڈ پریشر اور دماغی امراض کی ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی شامل تھا اس موقع پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے جاں بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں چودہ فیصد جبکہ باقی کی قیمتوں میں بیس فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔دریں اثناء اپنے لب و لہجے اور الفاظ کے استعمال میں عدم ا حتیاط کی شہرت رکھنے والے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر صحت انہی دنوں واشنگٹن میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے عہدیداروں سے ملاقات میں ڈریپ کی تکنیکی معاونت اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کے بعد جعلی ادویات کی رپورٹنگ اور مارکیٹ میں بلاک کرنے کے لئے یو ایس ایف ڈی اے کی جدید تکنیکی مہارت سے فائدہ اٹھانے کا اعلان کیا تھا ان کا دعویٰ تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کو عالمی معیار کے مطابق جدید خطوط پر استوار کرنے کی سعی میں ہے حکومت جعلی اور ان رجسٹرڈ ادویات کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے ۔ ان ساری سرگرمیوں کے ہوتے ہوئے یہ کہنے کی گنجائش نہیں کہ حکومت ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے ادویہ ساز کمپنیوں کے مفادات بارے اور جعلی ادویات کی روک تھام کے حوالے سے کسی قسم کی غفلت و تساہل کا شکار ہے مگر حقیقی صورتحال اس کے برعکس یوں ہے کہ یہ سب کچھ شاید دکھاوے کے سوا کچھ نہیں اس لئے کہ اس وقت مارکیٹ میں جعلی ادویات اور بھارت سے سمگل ہونے والی ادویات کی بھی بھرمار ہے اور ادویات کو مارکیٹ سے غائب کرکے کئی گنا زیادہ قیمت وصول کرنے کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے ۔ وفاقی وزیر صحت کی کوششوں اور دعوئوں کو کسوٹی پر پرکھیں تو ایک لاعلم شخص کی امریکی حکام سے بات چیت کی طرح ان کے اقدامات و نتائج بھی صفر ہیں اس وقت مارکیٹ میں ذہنی امراض سے متعلق ادویات کی شدید قلت ہے ان ادویات کی ضرورت کی شدت کے پیش نظر ان ادویات کو کسی بھی داموں خریدنا مریضوں اور ان کے تیمارداروں کی مجبوری ہوتی ہے ۔ مرگی کی ادویات ہوں یا شدید دماغی بیماری کے باعث بے قابو مریضوں کو لگنے و الے انجکشن مارکیٹ سے غائب کر دی گئی ہیں ایک ممتاز ماہر امراض دماغی اور حیات شہید ٹیچنگ ہسپتال کے ریٹائرڈ اعلیٰ عہدیدار نے ایک ایسے واقعے سے آگاہ کیا ہے جس پر جس قدر دکھ اور خجالت کا اظہار کیا جائے کم ہے پہلے ادویات کی ناپیدگی پر بات ہو جائے اس کے بعد واقعہ سے بھی آگاہ کرتی ہوں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ادویات کی قلت ہوتی ہے تو پھر یہ ادویات مہنگے داموں دستیاب کیسے ہوتے ہیں نمک منڈی کی مارکیٹ ان ادویات سے بھری پڑی ہے مگر صرف اور صرف ان کو غائب کرکے اضافی قیمتوں کی وصولی اور مریضوں کی مشکلات کو مہنگے داموں خریدنے کا یہ حربہ ہے اور کچھ نہیں اس ضمن میں ڈریپ سے لے کر ڈرگ انسپکٹروں کے کردار و عمل اور ملی بھگت کوئی پوشیدہ امر نہیں ان کی منشاء بلکہ اعانت کے بغیر ادویات کو مارکیٹ سے غائب کرکے مہنگے داموں میں فروخت ممکن ہی نہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ عاقبت نااندیش عناصر کواس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ حدیث پاک کی رو سے وہ لعنت کے موجب عمل کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں یہ لعنت چونکہ عمومی ہے اس لئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ادویات جیسی ضروری چیز کے بارے میں ہو تو اس لعنت کی شدت اور گناہ کی شدت میں صحت عامہ اور بیماروں کی زندگی و صحت سے کھیلنے اور ان کے مصائب و تکالیف میں اضافہ کے باعث و عید و گناہ کی شدت بھی مزید ہو گی۔مگر کسی کو پرواہ نہیں نہ وفاقی وزیر صحت کو نہ صوبائی حکومت و محکمہ صحت اور اس کے حکام کوکسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں ورنہ کم از کم یہ صورت حال تو نہ ہوتی دماغی امراض کی عام دوا کئی کئی گنا مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں اب اس واقعے کا تذکرہ ہو جائے محولہ ڈاکٹر نے ایک مریض کو آرام کی خاطر ایک انجکشن تجویز کی جس کی قیمت ایک سو بیس روپے ہے مریض کے لواحقین بھاگے بھاگے ڈبگری گارڈن کے کلمہ گو بھائیوں کی میڈیسن کی دکانوں پر گئے تو ان کو آٹھ سو روپے فی ا نجکشن بتایا گیا ان کو پانچ یاچارانجکشن درکار تھے مریض کے ہمراہیوں کو ڈاکٹرنے انجکشن کی قیمت کا بھی بتایا تھا تو وہ ایک سے دوسری دکان پوچھتے گئے مگر قیمت وہی آٹھ سو روپے چلتے چلتے وہ ایک سکھ بھائی کی دکان پہنچے تو انہوں نے ایک سو بیس روپے فی انجکشن کی قیمت لی اور یہ بھی نہیں کہ ایک دو انجکشن مل سکتے ہیں بلکہ مطلوبہ چار پانچ انجکشن ایک سو بیس روپے فی انجکشن کے حساب سے دے دیئے سکھ برادری کے کاروباری افراد کے قتل کا ایک سلسلہ چل رہا ہے رمضان المبارک میں اشیاء کی قیمتوں کو کم کرنے والے اس برادری کے دکاندار کا قتل ہو یا پھر دیگر تاجروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات عموماً اس طرح کے واقعات کو ہم دہشت گردوں کی کارروائی گردانتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ قتل اس منافع خورمافیا کی وارداتیں ہوں جن کا یہ لوگ مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی سے گریز کرکے ” کاروبار متاثر ” کر رہے ہوتے ہیں جو لوگ شدید ذہنی مرض میں آرام دینے والے ایک سو بیس روپے کا انجکشن آٹھ سو روپے میں بیچنے والے ہوں ان سے کسی کا قتل کچھ بعید نہیں کہنے کو ہم کلمہ گو اور ہمارا دین و مذہب اعلیٰ و ارفع ہے کلمہ اور دین اسلام کے حوالے سے یہ بات بالکل درست ہے لیکن بطور مسلمان ہمارا کردار و عمل کس قدر پستی اور گراوٹ کاہے اس ایک واقعے سے خود ہی فیصلہ کریں سکھ برادری کے عقیدے کا احترام کرتے ہوئے ان سے مذہبی اختلاف ہمارا حق ہے لیکن جس کردار کا مظاہرہ سکھ برادری کے دکاندار کرتے ہیں کیا ایسا نہیں کہ ہمارا دین ہم سے اس کردار کا متقاضی ہے مگر ہم سراسر برعکس کر رہے ہوتے ہیں ایسے میں خود کو مسلمان گرداننا کیا اسلام کی خدانخواستہ عملی نفی نہیں اسلام ہم سے اعلیٰ کردار کا متقاضی ہے ہمارے دین کی تعلیمات دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات سے بالاتر اور ارفع ہیں مگر ہم بطور مسلمان اپنے مالک حقیقی اپنے پیغمبر اور اپنے دین اور دین اسلام کی تعلیمات کسی کا بھی ہمیں کوئی خیال نہیں سہو اور گناہ بشری تقاضے ہیں ان سے تو مبرا نہیں ہوا جا سکتا مگر افسوس ہم اس کی ہر گز ہر گزسنجیدہ سعی ہی نہیں کرتے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور احادیث میں جن امور کو باعث لعنت گردان کر سخت وعید آئی ہے ہم جانتے بوجھتے وہ کرنے میں اتنے دلیر ہیں کہ ہمیں ذرا بھی پرواہ نہیں ہم نے دنیا کی تھوڑی سی منفعت کے لئے ساری وعیدوں کو بھلا دیا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو جوابدہی کا خیال ہوتا تو تاجر یوں من مانی نہ کر رہے ہوتے یہ باعث شرم و ندامت امر ہے کہ دیگرتجار تو دیانتداری کا مظاہرہ کریں اور ہمارے ہم مذہبوں کا کردار ہمارے سامنے ہے ۔ محولہ واقعہ ایک واقعہ نہیں ہم سب کے منہ پر طمانچہ ہے یہ ہم سے اپنے گردن کی شہتیر پر نظر ڈالنے کا متقاضی ہے کیا ہمارے علمائے کرام ہمارے دانشوروں ہمارے میڈیا اور ہمارے حکمرانوں اور ہمارے معاشرہ سبھی کو اس طرف توجہ کی ضرورت نہیں آخر کب ہم انفرادی اجتماعی یہاں تک کہ سرکاری اور ادارہ جاتی طور پر اس سے باز آنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا کیا ہمیں صور کے پھونکے جانے کا بھی یقین نہیں کیا اس طرح ہم جزا و سزا سے بچ سکیں گے ذرا سوچئے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال