کیا نو ماہ کی ریلیف کافی ہو گی؟

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری اصلاحات کرنے کا ایک اور موقع ہے، جب تک ہم اصلاحات نہیں کرتے پاکستان قرض دہندگان کا محتاج رہے گا۔ سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین 3 ارب ڈالر کے معاہدے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر اصلاحات نہیں کی گئی تو عوام حکومتوں کی ناکام تزویراتی اور حکمرانی کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ مفتاح اسماعیل نے امید ظاہر کی کہ معاہدہ ڈیفالٹ کے خلاف بہترین انشورنس ہے، اب ڈیفالٹ کے بادل چھٹ جائیں گے اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کم ہوجائے گی۔سابق وزیر خزانہ کو بھی اس معاہدے کا کریڈٹ اس طرح جاتا ہے کہ ان کوجس وقت سبکدوش ہونا پڑا تھا بلکہ ان کو جس مرحلے پر سبکدوش کیا گیا تھا اس کے بعد آنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑی کوشش کی کہ وہ راستہ تبدیل کرکے کامیابی کی کوئی صورت نکالیں مگر ان کونہ صرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کی ناکام پالیسیوں اور اقدامات کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا اور ڈالر کے بے قابو ہونے اور ذخیرہ اندوزی کی ملک و قوم کو بڑی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو سدھارنے میں وزیرخزانہ ناکام دکھائی دینے لگے تھے اور ملک ڈیفالٹ کے کنارے پہنچا تھا تب وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کو اس مشکل معاشی صورتحال سے نکالنے کے لئے مداخلت کی اور آئی ایم ایف سربراہ سے ان کی ٹیلی فونی بات چیت اور ملاقات رنگ لے آئی جس کے بعد نو ماہ کے لئے ملک کو جو ریلیف ملا ہے اس دورانیے کو زریں موقع گردان کر تجربات کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر فیصلے کرکے ان پر عملدرآمد کے ذریعے کم ازکم اس قدر کامیابی ضرور حاصل کی جائے کہ نو ماہ بعد ہم ایک نئے بحران کے دور میں داخل ہونے سے بچ سکیں اور ملک معاشی استحکام کی طرف گامزن ہو سکے۔حکمرانوں کو اس امر پر توجہ کی ضرورت ہے کہ قرض حاصل کرکے کب تک عیاشیوں کی نذرکرنے کا سلسلہ آخرکب تک جاری رہے گا اور آخر اس کاانجام کیا ہوگا اور ہم اس مشکل صورتحال سے آخر کب اور کیسے نکلیں گے ان سوالات کا آسان جواب یہی ہوسکتا ہے کہ سب مل کر پیٹ پر پتھر باندھ لیں کفایت شعاری اختیار کیجائے تو ایسا ہونا ناممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز