مشرقیات

خود بھی جوان رہیں اور اپنے پارٹنر کو بھی بوڑھا مت ہونے دیں۔ ہم نے عمر اور ظاہری حالت کو اندرونی کیفیات کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔ انسان کی اداسی اور خوشی کا تعلق اس کے اندر موجود شخص سے ہے۔ یہ اندر بیٹھا شخص در اصل بچہ بن کر رہنا چاہتا ہے۔ کچھ شرارتیں، کچھ الٹا سیدھا جیسے ہنسی مذاق، کھلکھلا کر مسکرانا، کبھی جوکر کی مانند اچھل کود کرنا, کبھی بچوں جیسی گفتگو کرنا، کبھی یہاں وہاں کی بے ترتیب سی باتیں کرنا تو کبھی ڈنڈی والے گلاب کو ہاتھ میں تھام کر انتظار کی سولی پر لٹکا رہنے کی خواہش کرتا ہے۔۔ہمیں لگتا ہے کسی کے بال سفید ہو جانا، کسی کی عمر زیادہ ہو جانا، کسی کا مذہبی ہونا یا عالم بن جانا اس کے میچور ہونے کی علامت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دین کا علم رکھنے والا بس ریموٹ کنٹرول مشین بن کر رہے، چالیسواں سال شروع ہو تو مسکراہٹ دھیمی ہونی چاہیے، ہم لوگوں کی عمر کے مطابق ان کے جذبات واحساسات پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ اندرونی کیفیات بھی بدل گئی ہیں۔۔جب کہ جوانی، بچپن یا بڑھاپا اندرونی کیفیات ہیں۔۔ عمر نہیں بلکہ سوچ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کون جواں ہے، کون بچہ اور کون بوڑھا ہے؟
ریسرچ کے مطابق بڑھاپے کا تعلق کسی کی عمر یا تاریخ پیدائش سے نہیں بلکہ” سٹیٹ آف مائنڈ” سے ہے۔ ہم کسی کی عمر دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ وہ جذبات واحساسات کی عمر گزار چکا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی سال کی عمر میں بھی انسان جزباتی طور پر جوان رہتا ہے، البتہ ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے دن بہ دن وہ خود کو ختم ہوتا محسوس کرتا ہے۔۔ نتیجتاً بڑھاپا نہیں بلکہ بوڑھی سوچ اس پر غالب آ جاتی ہے اور جب بوڑھی سوچ غالب آ جائے تو انسان کی جوانی بھی بڑھاپے والی قبر میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔ایک ستر سالہ بابا جی کسی دکان کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہر آنے جانے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق کرتے رہنا ان کی عادت ہے۔ کوئی ان بابا جی کو بوڑھا کہہ دے، ” عمر دیکھی ہے اپنی؟” یہ جملہ کہہ دیں تو ان کی طرف سے جواب ہوتا ہے۔ ” بوڑھا ہوگا تیرا باپ، تیری ایسی کی تیسی، میں نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟ ” وغیرہ وغیرہ۔ دکان پر آنے والے بچوں کی چیزیں چھین کر تنگ کرنا، اوپر نیچے لہراتے رہنا اور پھر بچوں کے ماتھے پر پیار کر کے واپس کر دینا۔ کوئی ہم عمر بزرگ سامنے سے گزرے تو کہنا” ابے سالے کمر جھک گئی ابھی سے؟ چھوٹا ہے تو مجھ سے۔ منہ پر مسکراہٹ نہ ہو تو تیرے جیسا حال ہو جاتا ہے۔۔ ایک ہفتہ میرے پاس بیٹھ تو جوان ہو جائے گا کمینے۔۔ اور دوسرے بزرگ ہنستے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ وہ شاید اسے پاگل سمجھتے ہیں جب کہ یہ پاگل خوب جی رہا ہے۔ جیسے انسانی نفسیات کو مکمل جانتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے۔۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز