خیبرپختونخوا دہشتگردی

خیبرپختونخوا دہشتگردی، 2007ء سے اب تک 1603 پولیس اہلکار و افسر شہید

ویب ڈیسک: خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کیخلاف جنگ، قیام امن اور فرائض کی انجام دہی کے دوران 2007ء سے 2023ء تک 1603 پولیس اہلکار و افسران شہید ہوئے جبکہ پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران مجموعی طور پر 1982 پولیس اہلکار و افسران کو نشانہ بنا کر انکی جانیں لی گئیں جن میں 2 ایڈیشنل آئی جی پیز، 2 ڈی آئی جیز، 1 ایس ایس پی، 6 ایس پیز، 1 اے ایس پی اور21 ڈی ایس پی رینک کے افسران شامل ہیں۔ سال 2009ء میں سب سے زیادہ 209 جبکہ 2023 کے دوران اب تک 137 پولیس اہلکار و افسر دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ پشاور میں گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ 358 جبکہ ڈی آئی خان میں 221 پولیس اہلکاروں اور افسران کی جانیں لی گئیں۔
اس حوالے سے محکمہ پولیس خیبرپختونخوا نے اعداد و شمار جاری کر دیئے ہیں جس کے مطابق 1970ء سے 2006ء تک فرائض کی انجام دہی کے دوران 369 پولیس افسر و اہلکارجاں بحق ہوئے۔ 2007ء کے بعد خطے میں دہشتگردی کی لہر آئی اور2008ء اور اس کے بعد آنے والے سالوں میں دہشتگردی عروج پر پہنچ گئی تھی اور تاحال خودکش حملوں کے علاوہ بم دھماکوں اور پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ 2007ء میں 101، 2008ء میں 172، 2010ء میں 107، 2011ء میں 154، 2012ء میں 106، 2013ء میں 134، 2014ء میں 111، 2015ء میں 61 اور 2016ء میں 74 پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کیا گیا جس کے بعد پولیس پر حملوں میں کمی آئی تاہم 2022ء میں دوبارہ پولیس پر حملوں میں تیزی آئی اور 61 پولیس اہلکار و افسروں کو شہید کیا گیا۔
2023ء میں ان حملوں میں مزید شدت دیکھی گئی اور اب تک 137 پولیس اہلکار و افسروں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق 1970 سے اب تک خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سب سے زیادہ 358، ڈی آئی خان میں 221، بنوں 211، سوات 136، مردان 126 اور کوہاٹ میں 106 پولیس اہلکاروں و افسروں کو نشانہ بنا کر ان کی جانیں لی گئیں ہیں۔

مزید پڑھیں:  اذلان شاہ ہاکی کپ کا فائنل:پاکستان اور جاپان 11مئی کو مدمقابل ہوں گے