اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

جس خلیل خان کو ایک عرصے سے ڈھونڈا کئے ‘ اور جو ہمیں کبھی نہیں ملے اب معلوم ہوا ہے کہ اس نے جاپان میں بسرام کر لیا ہے، کیونکہ اخبارات میں شائع ہونے والی ایک تصویر میںایک نہیں سینکڑوں خلیل خان نظر آ رہے ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد ہتھیارڈالنے کے78 سال پورے ہونے پر فاختائیں اڑا رہے ہیں اور دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں ، اب ہمیں یہ بھی سمجھ میں آگئی ہے کہ ہمارے ہاں سے خلیل خانوں نے نقل مکانی کیوں کرلی ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے ، یہ تب کی بات ہے جب ہمارے اجداد کے زمانے میں امن و آشتی ہوا کرتی تھی’ اس لئے خلیل خانوں کی بھی بہتات ہوا کرتی تھی ‘ ایسی ہی کسی صورتحال کے حوالے سے ہم نے بھی کہا تھا
امن مدینے کے اندر تم جھانکو تو
ہر منڈیر پہ فاختہ اک رقصاں ہوگی
مگر ہمیں امن شاید راس نہیں آرہا تھا کیونکہ ہمارے ہمسائے میں ایسے”دہشت گرد” سوچ کی حامل حکومت نے ہمارے امن کو بار بار تاراج کرنے کی ناکام کوششیں کیں’ اور جب اس کے جذبہ توسیع پرستی کو کسی بھی طور کامیابی نصیب نہ ہوئی تو اس نے ہمارے ایک بازو کے اندر علیحدگی کے جراثیم کی پرورش کے لئے سازشیں شروع کر دیں اور بالآخر ہمارے وجود کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن اس کی ہوس توسیع پسندی کو پھر بھی چین نہ آیا اور اس نے جوہری قوت کے حصول پر نہ صرف اپنے ملک کے تمام وسائل خرچ کرنا شروع کر دیئے بلکہ ہمیں بھی مجبور کر دیا کہ ہم میں کسی کے مذموم مقاصدکے آگے بند باندھنے کے لئے جوابی ایٹمی قوت بن کر دکھائیں ، حالانکہ جاپان نے دو ایٹمی تجربات کے زخم چاٹتے ہوئے بھی ان کے راستے کو چنا اور اقتصادی قوت کے طور پر خود کو یوں منوایا کہ ہمیں یاد ہے جب امریکہ میں ڈونلڈ ریگن کی حکومت تھی تو جاپان نے اپنی کرنسی ”ین”کو ڈالر کی ”قید”سے آزاد کرتے ہوئے بین الا قوامی مارکیٹ میں فلوٹ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تاکہ وہ اپنی قیمت کا تعین کر سکے ، جاپان کے اس فیصلے نے امریکہ میں بھونچال کھڑا کر دیا اور وہ جاپان کے منت ترلے کرنے لگا کہ ین کو ڈالر سے علیحدہ کرنے کو عملی صورت نہ دی جائے اگراس وقت اس فیصلے پر عمل درآمد کر دیا جاتا تو ڈالر زمین بوس ہونے کے خطرات سے دوچار ہو جاتا’ دوسری جانب امریکہ نے ہمیں سرد جنگ کے زمانے ہی سے اپنی پالیسیوں کا اسیر بناکر رکھ دیا تھا اور اقتصادی امداد کے نام پر ہمیں ایسی پالیسیاں اختیار کرنے سے روکے رکھا جن پر چل کر ہم بقول علامہ اقبال ”اپنی دنیا آپ پیدا کراگر زندوں میں ہے”
کے خوگر ہو سکتے تھے’ بلکہ الٹا ہمیں نیٹو اور ناٹو کی پالیسیوں میں جکڑ کر ” امن” کے حصول سے دور بھی رکھا اور ضرورت پڑنے پر ہمیں ”ٹھینگا” بھی دکھاتا رہا، یعنی 65 ء کی جنگ کے دوران ہم پر نہ صرف (پہلے ہی سے ازکار رفتہ) ٹینکوں اور جنگی جہازوں کے فاضل پرزے دینے سے انکار کر دیا اور خود بھی کوئی مدد نہیں کی یہ کہہ کر کہ نیٹو معاہدے کے تحت امریکہ صرف اس صورت میں ہماری مدد کو آ سکتا ہے جب ہمیں کمیونزم سے کوئی خطرہ لاحق ہو جائے ‘یہاں تک کہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے گیارہویں بحری بیڑے کی آمد کے پر شور پروپیگنڈے کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور پاکستان کو بھارت نے ملکی غداروں(مکتی باہنی) کے ساتھ مل کر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، ازاں بعد ایک جانب بھارت نے جوہری قوت بنے کی راہ پر قدم بڑھانے شروع کر دیئے جبکہ پاکستان نے ” گھاس کھانے”کے بیانیے پربہ امرمجبوری ایٹمی اثاثے بنانے کی جانب توجہ اس لئے دی کہ جاپان کو تو دوایٹم بموںکے تلخ ترین گھونٹ پینے کے باوجود ہوش آیا اور اس نے ایٹمی تجربات کی بجائے اقتصادی بم بننے پر توجہ دی کیونکہ اس کے بعد جاپان کا دشمن کوئی نہیں رہا تھا جبکہ ہمارا ازلی دشمن آج بھی آرام سے بیٹھنے پر تیار نہیںہے’ تو پھر بطور ڈیئرنٹ ہم ایٹمی قوت سے کم پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر کیسے تیار ہو سکتے ہیں اور جب اس کے بعد ہمارے مغربی سرحدوں پر بھی ایک طویل جنگ چھڑ گئی یا چھیڑ دی گئی’جس نے اب دہشت گردی کی ایک خطرناک صورت اختیار کرلی ہے تو ہم اس سے آنکھیں کیسے بند کر سکتے ہیں’ اس صورتحال پر بھی ہماری جو کیفیت ہے وہ خود ہمارے ہی ایک اور شعرمیں پنہاں دکھائی دے رہی ہے کہ
تتلیوں کو قتل کرکے اس کی خواہش میں ہم
ڈھیر اب بارود کا دہلیز پر دھونے لگے
کاش ہمارے ہاں وہ ”خلیل خان”موجود رہتے یہاں سے کسی ایسے خطے کی جانب ہجرت نہ کر جاتے جن کا مقصد امن کی فاختائیںاڑانا تھا تھا’ ہمارے چاروں اور پنپتی سازشوں نے ہمیں بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا اور
در غنیم جلانے کو جو لگاتی تھی
وہ آگ پھیل گئی میرے آشیانے تک
سکوں سے مرنے کی خواہش شباب کیسے کریں
بپا ہے شور یہاں میر کے سرہانے ایک ہمیں چاروں طرف سے ”گھیرنے” والوں نے جس چالاکی اور عیاری سے دہشت اور بربریت کو لاکر ہماری دہلیز پر پھیلا دیا ہے ‘اب ہماری امن کی خواہش پوری نہیں ہو رہی ہے امن و آشتی کا نام نشان مٹ رہے ہیں ۔ مذہبی اور دینی اکابرین کے واضح اور دو ٹوک فتوے بھی بقول ان مذہبی حلقوں کے خوراج کا کچھ نہیں بگاڑسکتے اور ہمیں ایک نظم کی یاد دلارہے ہیں ‘ جس کا عنوان ہے مکافات عمل جو جنوری2008ء میں قلم کی نوک سے نکلی تھی
یہ ہم نے کیا کیا ؟ سورج کوہم نے قتل کرڈالا؟
اور اپنے گھر کے آنگن میں زخودتاریکیاں بھر دیں
اجالے روٹھ کر جانے کہاں اب کھو چکے ہیں
زمیں میں کاشت کرنے کے لئے
نفرت ہی نفرت رہ گئی ہے
خدا جانے کہ یہ زہراب کب تک
اپنے ہونٹوں سے لگانے کے لئے ‘ مجبور ہم ہوں گے
منوں مٹی تلے سورج کو دفنا کر
اجالوں کی تمنا کیوں کرے کوئی؟
اگر ہم اپنے آنگن میں
محبت اور سکون و امن کی سوچیں اگاتے تو
تناور پیڑ بن کر اپنی چھایا میں ہمیں لیتے
مگر بارود بونے سے ‘ زمیں کب پھول جنتی ہے
خدا جانے اندھیرے سینچ کر ہم
کیوں تمنا روشنی کی کر رہے ہیں

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری