وزیر اعظم کا عزم

جڑانوالہ میں گزشتہ روز ہونے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی ‘ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ”میں یقین دلاتا ہوں حکومت تمام پاکستانیوں کو مساویانہ تحفظ فراہم کرے گی ۔ سابق وزیر اعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ جڑانوالہ کے واقعات سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے ‘ ایک بیان میں سے سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان مسیحی برادری کے ووٹ سے بنا تھا’ ایسے محسنوں کے ساتھ یہ رویہ انتہائی قا بل افسوس ہے’ سابق صدر آصف علی زرداری نے جڑانوالہ واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے مذہب میں عبادت گاہوں کے احترام کا درس دیا گیا ہے،انتشار اور فساد پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے’چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عبادت گاہوںکے تقدس کی پامالی کو نا قابل قبول قرار دیا ہے، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں پر حملہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، کسی شخص یا ہجوم کو خود جج اور جلاد بن کر کارروائی کا اختیار نہیں ہے ‘پاکستان علماء کونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی نے بھی اس واقعے کی پر زور مذمت کی ہے ، غرض سیاسی اور مذہبی قیادت نے جس طرح اس واقعے پر ایک معتدل انداز فکراختیار کیا ہے اس کے ڈانڈے بانی پاکستان بائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی اس تاریخی تقریر میں پیوست نظر آتے ہیں جو انہوں نے قیام پاکستان کے وقت نہایت واضح الفاظ میں ملک کی اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے حوالے سے ان کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے یقین دہانی کراتے ہوئے کی تھی اورہر مذہب کے پیروکاروں خواہ ہندو ہوں ‘عیسائی ہوں، سکھ ہوں ‘بدھ مت کے پیروکار ہوں’بالمیکی، پارسی یا دیگر کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت میں مسلمان ‘ عیسائی، سکھ وغیرہ جیسی بڑی اقلیتوں کے علاوہ چھوٹی اقلیتوں کے ساتھ جو حشر کیا گیا اس کے دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی اکا دکا واقعات نے جنم لینا شروع کر دیا تھا اور ماضی میں ہندوئوں کے مندروں پر بھی حملے کئے جاتے رہتے ‘تاہم جب سے بعض مغربی ممالک میں شعائر اسلام کی بے حرمتی کے جو واقعات رونماء ہو رہے ہیں اور نہ صرف آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک کی بے حرمتی کی جارہی ہے ان کے خلاف شرمناک تصاویر اور کارٹون بنائے جارہے ہیں، بلکہ قرآن حکیم کو جلانے اور بے حرمتی کے واقعات میں”اظہار آزادی رائے” کے نام نہاد بیانئے پر مغربی ممالک میںجان بوجھ کر مسلمانوںکی دل آزاری کے واقعات کی نہ صرف اجازت دی جا رہی ہے بلکہ ان کے دنیا بھرکے مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود ان سرگرمیوں کو روکنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی تا کہ مسلمان ردعمل کے طور پر ایسی حرکات کر گزریں جن سے انہیں من حیث المجموع انتہا پسندقرار دے کر اسلام اور شعائر ا سلام کے خلاف مزید کارروائیوں کی راہ ہموار کی جائے ۔ جہاں تک جڑانوالہ کے واقعہ کا تعلق ہے اس سے پہلے بھی بعض اقلیتی باشندوں کی طرف سے شعائر اسلام کی بے حرمتی کے واقعات اور ان پرردعمل سے ملک میں امن و امان کے مسائل جنم لیتے رہے ہیں ‘ اس واقعے کے حوالے سے پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر کے بیان کے مطابق عوامی جذبات کو ابھار کر فساد کی کوشش کی گئی ‘ خبروں کے مطابق فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے واقعہ کے خلاف مشتعل مظاہرین نے مسیحی آبادی پر دھاوا بول دیا اور متعدد گرجا گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ نگران وزیر اعظم نے اس واقعہ پر اپنے بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذمہ دار افراد کے خلاف سختی ایکشن ہوگا ‘اقلیتوں پر حملے کرنے والے مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے ‘ حکومت تمام شہریوں کو مساویانہ تحفظ فراہم کرے گی ‘ اپنے ایک ٹویٹ میں نگران وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جڑانوالہ ‘ فیصل آباد سے مومصول ہونے والی خبروں پر دل انتہائی رنجیدہ ہے ‘ قانون کی خلاف ورزی کرکے اقلیتوں کونشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ‘ انہوں نے کہا کہ تمام قانون نافذ کرنے والوں کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ ان واقعات میں ملوث شرپسندوں کو گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ‘ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اپنی اقلیتوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے جس طرح اس واقعے کی مذمت کی ہے وہ اپنی جگہ تاہم مذہبی قیادت کابھی فرض بنتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو اسلامی اصول و ضوابط کے بارے میں بتائیں کہ خود ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ معاشرے میں سلوک کے حوالے سے کونسے رہنماء اصول ہمیں اپنی تعلیمات کے ذریعے بتائے ہیں ‘ یہ سب بھی اپنی جگہ تاہم ضروری امر یہ ہے کہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرکے عدالتی کمیشن کے قیام کی درخواست کی جائے اس لئے کہ اگر صرف قانو نافذ کرنے والے اداروں پر مبنی کوئی انکوائری کرائی گئی تو ممکن ہے کہ اس پر بعد میں سوال اٹھیں ‘ اس ضمن میں یقینا عالمی برادری خصوصاً مغربی عیسائی دنیا کی نظریں انکوائری پرمرکوز ہوں گی اور اہل مغرب (جہاںکھلے عام شعائر ا سلامی کی بے حرمتی کی جاتی ہے) اسے اپنے ہاں مسلمان دشمنی کے اقدامات کیلئے جواز کے طور پر سامنے رکھتے ہوئے وہاں مقیم مسلمانوں کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کرکے واقعے میں ملوث تمام افراد ‘خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ‘ بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان